ایس سی او اجلاس: چین کی عالمی نظام میں ’جارحانہ رویے‘ پر تنقید

چینی صدر شی جن پنگ نے شنگھائی تعاون تنظیم کے افتتاحی اجلاس میں کہا کہ ’انصاف اور مساوات پر کاربند رہیں۔۔ سرد جنگ کی ذہنیت، کیمپوں کی محاذ آرائی اور جارحانہ رویے کی مخالفت کریں۔

چینی صدر شی جن پنگ نے پیر کو شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے سربراہی اجلاس میں عالمی نظام میں جاری ’جارحانہ رویے‘ پر کڑی تنقید کی۔ اس اجلاس میں روسی صدر ولادی میر پوتن اور انڈین وزیراعظم نریندر مودی سمیت کئی علاقائی رہنما شریک تھے۔

فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق انہوں نے رہنماؤں سے کہا کہ ’انصاف اور مساوات پر کاربند رہیں۔۔ سرد جنگ کی ذہنیت، کیمپوں کی محاذ آرائی اور جارحانہ رویے کی مخالفت کریں۔ ان رہنماؤں میں روس کے ولادی میر پوتن اور انڈیا کے نریندر مودی بھی تھے۔

شنگھائی تعاون تنظیم  کے قیام کا مقصد خطے میں امن و سلامتی قائم کرنا، سرحدی تنازعات کم کرنا اور دہشت گردی، انتہا پسندی و علیحدگی پسندی کے خلاف مشترکہ حکمت عملی اپنانا تھا۔

اس تنظیم کے رکن ممالک میں چین، انڈیا، روس، پاکستان، ایران، قازقستان، کرغزستان، تاجکستان، ازبکستان اور بیلاروس شامل ہیں، جبکہ 16 مزید ممالک ناظرین یا ’مکالمہ شراکت دار‘ ہیں۔

ان ممالک کے سربراہ دو روزہ اجلاس کے لیے اکٹھے ہوئے ہیں۔

شی جن پنگ نے کہا: ’موجودہ بین الاقوامی صورت حال مزید پیچیدہ اور گڈمڈ ہوتی جا رہی ہے۔ رکن ممالک کے سامنے سلامتی اور ترقی کے تقاضے مزید چیلنجنگ ہو گئے ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’ماضی پر نظر ڈالیں تو ہنگامہ خیز وقتوں کے باوجود ہم نے شنگھائی سپرٹ پر عمل پیرا ہو کر کامیابیاں حاصل کیں۔ مستقبل کی طرف دیکھتے ہوئے، جبکہ دنیا انتشار اور تبدیلی سے گزر رہی ہے، ہمیں شنگھائی سپرٹ پر کاربند رہتے ہوئے مزید آگے بڑھنا ہو گا اور تنظیم کے کردار کو بہتر طور پر ادا کرنا ہو گا۔‘

مودی کا چین کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کا عزم، سرحدی معاہدے کی تصدیق

دوسری جانب خبر رساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق اتوار کو صدر شی جن پنگ کے ساتھ ایک اہم ملاقات میں انڈیا کے وزیراعظم نریندر مودی نے کہا ہے کہ نئی دہلی چین کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے لیے پرعزم ہے۔

مودی سات سال بعد پہلی بار چین میں شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے دو روزہ اجلاس میں شریک ہیں۔ اجلاس میں روسی صدر ولادی میر پوتن سمیت وسطی، جنوبی، جنوب مشرقی ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے دیگر رہنما بھی شریک ہیں، جسے مبصرین ’گلوبل ساؤتھ‘ کے اتحاد کی علامت قرار دے رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ اجلاس ایسے وقت پر ہو رہا ہے جب واشنگٹن نے انڈین مصنوعات پر 50 فیصد محصولات عائد کر دیے ہیں، جو نئی دہلی کی روسی تیل خریداری کے جواب میں تھا۔

تجزیہ کاروں کے مطابق اس اقدام نے مودی اور شی کو مغربی دباؤ کے خلاف ایک دوسرے کے قریب کر دیا ہے۔

انڈین وزارت خارجہ کے مطابق مودی نے کہا کہ انڈیا اور چین سٹریٹجک خودمختاری کو ترجیح دیتے ہیں اور ان کے تعلقات کو کسی تیسرے ملک کے تناظر میں نہیں دیکھا جانا چاہیے۔

مودی نے چین کے ساتھ تجارتی خسارہ کم کرنے اور علاقائی و عالمی مسائل پر تعاون بڑھانے پر زور دیا، جن میں دہشت گردی اور منصفانہ تجارتی طریقہ کار شامل ہیں۔

مودی نے مزید کہا: ’ہم باہمی احترام، اعتماد اور حساسیت کی بنیاد پر اپنے تعلقات کو آگے بڑھانے کے لیے پرعزم ہیں۔‘ ان کی ملاقات کی ویڈیو ان کے سرکاری ایکس (سابق ٹوئٹر) اکاؤنٹ پر بھی جاری کی گئی۔

سرحدی تنازع اور امن کا ماحول

مودی نے کہا کہ ہمالیہ کی متنازعہ سرحد پر ’امن و استحکام‘ کا ماحول قائم ہو گیا ہے۔ یہی وہ علاقہ ہے جہاں 2020 میں مہلک جھڑپوں کے بعد طویل فوجی تناؤ پیدا ہوا تھا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ دونوں ممالک نے سرحدی انتظامات کے حوالے سے ایک معاہدہ کر لیا ہے، تاہم اس کی تفصیلات نہیں بتائیں۔

 شنہوا نیوز ایجنسی کے مطابق، صدر شی جن پنگ نے کہا: ’ہمیں سرحدی مسئلے کو چین انڈیا تعلقات کی مجموعی سمت متعین کرنے نہیں دینا چاہیے۔‘

شی نے مزید کہا کہ اگر دونوں ممالک ایک دوسرے کو حریف کے بجائے شراکت دار کے طور پر دیکھیں تو تعلقات ’مستحکم اور دور رس‘ ہو سکتے ہیں۔

گذشتہ سال روس میں دونوں رہنماؤں کی ملاقات میں سرحدی گشت کے معاہدے کے بعد تعلقات میں بہتری آئی تھی۔ حالیہ ہفتوں میں یہ گرمجوشی مزید بڑھی ہے، کیونکہ نئی دہلی واشنگٹن کے دوبارہ محصولات عائد کرنے کے خدشے کے پیش نظر متوازن حکمت عملی اختیار کر رہا ہے۔

مودی نے کہا کہ انڈیا اور چین کے درمیان براہِ راست پروازیں، جو 2020 سے معطل ہیں، بحال کی جا رہی ہیں، تاہم وقت کا تعین نہیں کیا گیا۔

تجارت اور تعاون

مودی نے بتایا کہ چین نے انڈیا کے حالیہ دورے میں نایاب معدنیات، کھاد اور سرنگ کھودنے والی مشینوں پر برآمدی پابندیاں ختم کرنے پر اتفاق کیا ہے۔

چینی سفیر شو فے ہونگ نے کہا کہ چین انڈیا پر امریکی محصولات کی سخت مخالفت کرتا ہے اور ’انڈیا کے ساتھ مضبوطی سے کھڑا رہے گا۔‘

گزشتہ مہینوں میں چین نے انڈین سیاحوں کو تبت میں ہندو اور بدھ مذہبی مقامات پر جانے کی اجازت دی ہے جبکہ دونوں ممالک نے سیاحتی ویزہ پابندیاں بھی ختم کر دی ہیں۔

دیگر چیلنجز

اگرچہ تعلقات میں گرم جوشی آئی ہے لیکن دیرینہ رکاوٹیں برقرار ہیں۔ چین انڈیا کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے، تاہم تجارتی خسارہ اس سال ریکارڈ 99.2 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے، جو انڈین حکام کے لیے تشویش کا باعث ہے۔

ادھر تبت میں چین کے مجوزہ میگا ڈیم نے یہ خدشات پیدا کر دیے ہیں کہ خشک موسم میں برہماپتر ندی کے پانی کے بہاؤ میں 85 فیصد تک کمی ہو سکتی ہے۔

مزید برآں دلائی لامہ — جلاوطن تبتی روحانی رہنما — انڈیا میں ہیں، جنہیں بیجنگ علیحدگی پسندی کے لیے خطرہ سمجھتا ہے۔ انڈیا کا روایتی حریف پاکستان بھی چین کی مضبوط عسکری، سفارتی اور معاشی حمایت سے فائدہ اٹھاتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا