بیجنگ کی جانب سے علاقائی قیادت کی کوششوں کو جمعرات کو اس وقت دھچکا لگا جب انڈیا نے چین کی میزبانی میں شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے رکن ممالک کے وزرائے دفاع اجلاس کے مشترکہ اعلامیے کو ’پاکستان حامی‘ قرار دے کر دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔
انڈیا کے مطابق اس اعلامیے میں اپریل 2025 میں اس کے زیر انتظام کشمیر میں ہونے والے دہشت گردانہ حملے کا ذکر نہیں کیا گیا۔
اعلامیے پر دستخط کی تقریب مشرقی چین کے شہر چنگ ڈاؤ میں شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے دفاع کے اجلاس کے دوران ہوئی۔ یہ علاقائی گروپ چین اور روس نے ایشیا میں امریکی اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے تشکیل دیا تھا۔ اس اجلاس میں دیگر رکن ممالک کے وزرائے دفاع سمیت پاکستانی وزیر دفاع خواجہ آصف بھی شریک ہوئے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق اس معاملے سے واقف ایک شخص نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ انڈین وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے کہا کہ ’اس اعلامیے نے دہشت گردی اور علاقائی سلامتی جیسے اہم مسائل پر انڈیا کے موقف کو کمزور کر دیا ہے۔‘
انڈیا 22 اپریل 2025 کو اپنے زیر انتظام کشمیر کے سیاحتی مقام پہلگام میں ایک حملے میں 22 اموات کی ذمہ داری پاکستان پر عائد کرتا ہے، جس کی اسلام آباد تردید کرتا آیا ہے۔
راج ناتھ سنگھ نے الزام عائد کیا کہ مشترکہ اعلامیہ ’پاکستان کے بیانیے کے مطابق ہے‘ کیونکہ اس میں پہلگام حملہ شامل نہیں کیا گیا، لیکن اس میں بلوچستان میں عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ پاکستان بارہا انڈیا پر بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی پشت پناہی کا الزام لگا چکا ہے جبکہ نئی دہلی ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔
راج ناتھ سنگھ نے واضح طور پر پاکستان کا نام لیے بغیر ایس سی او پر زور دیا کہ وہ ان ممالک پر تنقید کرے جو ’سرحد پار دہشت گردی کو پالیسی کے ایک آلے کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور دہشت گردوں کو پناہ دیتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ اراکین کو دہشت گردی کے خاتمے کے لیے متحد ہونا چاہیے اور اس طرح کی سرگرمیوں میں مدد کرنے والوں کا احتساب یقینی بنانا چاہیے۔
انڈین وزارت دفاع کے ایک بیان کے مطابق راج ناتھ سنگھ نے کہا کہ ’امن اور خوشحالی، دہشت گردی اور غیر ریاستی عناصر اور دہشت گرد گروہوں کے ہاتھوں میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے ساتھ ساتھ نہیں رہ سکتے۔ ان چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے فیصلہ کن کارروائی کی ضرورت ہے۔‘
پہلگام حملے کا الزام نئی دہلی نے پاکستان پر عائد کرتے ہوئے چھ اور سات مئی کی درمیانی شب پاکستان کے مختلف مقامات پر حملے کیے اور جوابی کارروائی میں اسلام آباد نے انڈیا کے مختلف علاقوں پر حملے اور رافیل سمیت اس کے چھ طیارے بھی مار گرائے۔ بعدازاں 10 مئی کو امریکی ثالثی میں ہونے والی جنگ بندی کے تحت دونوں ممالک نے تمام فوجی کارروائیاں ختم کرنے پر اتفاق کیا۔
پاکستانی وزیر دفاع کا مسئلہ کشمیر اور فلسطین کے حل پر زور
پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے جمعرات کو شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے دفاع اجلاس سے خطاب میں ایران کے خلاف اسرائیل کے بلاجواز اور غیر قانونی فوجی اقدامات کی مذمت کرتے ہوئے عالمی برادری پر کشمیر اور فلسطین جیسے دیرینہ تنازعات حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
پاکستانی وزارت دفاع کی طرف سے جاری ہونے والے بیان کے مطابق خواجہ آصف نے شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے دفاع کے اجلاس سے خطاب میں کہا کہ پاکستان بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ متنازع اور غیر قانونی طور پر مقبوضہ علاقے جموں و کشمیر (کے علاقے پہلگام) میں دہشت گرد حملے کی مذمت کرتا ہے۔
انہوں نے کسی ملک کا نام لیے بغیر کہا: ’ہم تمام ممالک سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ان ریاستوں کو جواب دہ بنائیں جو جعفر ایکسپریس جیسے دہشت گرد حملوں کی منصوبہ بندی، مالی معاونت اور سرپرستی کرتی ہیں، جیسا کہ بلوچستان، پاکستان میں ہوا۔‘
وزیر دفاع نے عالمی تنازعات پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ایران کے خلاف اسرائیل کے بلاجواز اور غیر قانونی فوجی اقدامات کی مذمت کی۔
انہوں نے غزہ میں بڑھتی ہوئے تشدد اور انسانی بحران پر بھی گہری تشویش کا اظہار کیا اور اسرائیل کی فلسطینی شہریوں پر وحشیانہ اور مسلسل حملوں کو روکنے اور انسانی امداد کی آزادانہ فراہمی کو یقینی بنانے کے لیے مستقل فائر بندی کے فوری نفاذ کا مطالبہ کیا۔
دہشت گردی کے معاملے پر انہوں نے کہا کہ یہ ایک مشترکہ خطرہ ہے اور اس کا مقابلہ اجتماعی طور پر کرنا ہو گا۔
بقول خواجہ آصف: ’پاکستان تمام ممالک سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ بین الاقوامی برادری کی دہشت گردی کے خلاف مشترکہ کوششوں کو سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہ کریں اور اپنی داخلی ناکامیوں سے توجہ ہٹانے کے لیے اس جدوجہد کو نہ الجھائیں۔‘
انہوں نے دہشت گردی کی ہر شکل اور ہر صورت میں بھرپور مذمت کا اعادہ کیا۔
اپنے خطاب میں وزیر دفاع نے ایس سی او کے اصولوں اور مقاصد سے پاکستان کی پختہ وابستگی کا اعادہ کرتے ہوئے اجتماعی سلامتی، انسداد دہشت گردی کی مربوط کوششوں اور علاقائی رابطے کے فروغ کی اہمیت کو اجاگر کیا۔
انہوں نے کہا کہ ایس سی او اپنے رکن ممالک کے درمیان مکالمے، باہمی اعتماد اور شراکت داری کو فروغ دیتے ہوئے استحکام کا اہم ستون ہے۔
خواجہ آصف نے اقوام متحدہ، ایس سی او کے منشور اور عالمی سطح پر تسلیم شدہ بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کرنے کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان امن، سلامتی، ہمسایہ ممالک کے درمیان خوشگوار تعلقات اور ملکوں کے درمیان تعاون کے فروغ کے لیے پرعزم ہے۔
وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ ایس سی او کے تحت علاقائی خوشحالی کے مشترکہ مقصد کے حصول کے لیے پرامن اور مستحکم افغانستان ناگزیر ہے تاکہ علاقائی رابطے کو فروغ مل سکے۔
ایس سی او وزرائے دفاع اجلاس میں مزید کیا ہوا؟
چین کافی عرصے سے 10 رکنی شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کو مغربی طاقتوں کے اتحاد کے مقابلے میں متبادل قوت کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ اس نے تنظیم کے رکن ممالک کے درمیان سیاست، سکیورٹی، تجارت اور سائنس کے شعبوں میں تعاون مضبوط بنانے کی کوشش کی۔
چنگ ڈاؤ میں تنظیم کے اعلیٰ دفاعی حکام کی یہ ملاقات ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب اسرائیل اور ایران کے درمیان 12 روزہ جنگ کے بعد نافذ ہونے والی جنگ بندی فی الحال برقرار ہے۔
یہ ملاقات دی ہیگ میں ہونے والے نیٹو کے سربراہی اجلاس کے اگلے دن ہوئی، جس میں رکن ممالک نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مطالبے پر اپنے دفاعی بجٹ بڑھانے پر اتفاق کیا۔
بیجنگ کے ماسکو کے ساتھ تعلقات بھی نمایاں ہیں۔ چین نے یوکرین کے خلاف روس کی جنگ میں خود کو غیرجانبدار فریق کے طور پر پیش کیا، تاہم مغربی حکومتوں کا کہنا ہے کہ چین کے روس کے ساتھ قریبی تعلقات نے ماسکو کو معاشی اور سفارتی مدد فراہم کی۔
روسی وزیر دفاع آندرے بیلوسوف نے اجلاس میں اپنے ہم منصب وزرا سے خطاب کرتے ہوئے دنیا کی ’بگڑتی ہوئی جغرافیائی سیاسی کشیدگیوں‘ کی تاریک تصویر پیش کی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
روسی وزارت دفاع کے بیان کے مطابق انہوں نے کہا کہ ’دنیا کی موجودہ عسکری اور سیاسی صورت حال مشکل ہے اور مزید خراب ہونے کے آثار نمایاں ہیں۔‘
ان کے چینی ہم منصب ڈونگ جُن نے بھی جمعرات کو چنگ ڈاؤ میں ہونے والے اس اجلاس کو دنیا میں ’افراتفری اور عدم استحکام‘ کے مقابلے کے طور پر پیش کیا۔ چنگ ڈاؤ میں چینی بحریہ کا ایک بڑا اڈہ واقع ہے۔
چینی سرکاری خبر رساں ادارے شنہوا کے مطابق بدھ کو روس، ایران، پاکستان، بیلاروس اور دیگر ممالک کے دفاعی سربراہوں کا خیرمقدم کرتے ہوئے چینی وزیر دفاع ڈونگ جُن نے کہا کہ ’صدی کی غیر معمولی تبدیلیاں تیزی سے رونما ہو رہی ہیں جب کہ یکطرفہ فیصلے اور تحفظ پسندانہ پالیسیاں بڑھ رہی ہیں۔‘
انہوں نے خبردار کیا کہ ’جارحانہ، بالادست اور دھونس پر مبنی اقدامات عالمی نظام کو شدید نقصان پہنچا رہے ہیں۔‘
انہوں نے اپنے ہم منصبوں پر زور دیا کہ ’پرامن ترقی کے لیے ماحول کے تحفظ کی خاطر مشترکہ طور پر زیادہ مضبوط اقدامات کیے جائیں۔‘
اس تنازعے کے ماحول میں بیجنگ نے تہران کو سفارتی حمایت سے بڑھ کر کچھ نہیں دیا جس سے علاقے میں چین کے محدود اثر و رسوخ اور امریکہ کے ساتھ تعلقات مزید خراب نہ کرنے کی خواہش کی عکاسی ہوتی ہے۔
سنگاپور کی ننیانگ ٹیکنالوجیکل یونیورسٹی میں چینی فوج کے ماہر جیمز چار نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’ایران کے لیے چین کی کھلی حمایت عملی اقدامات سے زیادہ لفظوں تک ہی محدود رہے گی۔‘
وہ کہتے ہیں کہ ’ایران پر امریکی حملوں کی مذمت کرنے کے علاوہ، بیجنگ مشرق وسطیٰ کے سلامتی معاملات میں انتہائی محتاط رہے گا اور علاقے کے سلامتی کے مسائل میں الجھنا نہیں چاہے گا۔‘
چین کی خارجہ پالیسی کی ماہر اور ایگزیٹر یونیورسٹی کے لیکچرر اینڈریا گھیسیلی نے کہا کہ ایران کے وزیر دفاع ممکنہ طور پر ’چین کے ساتھ اسلحے کی فراہمی پر بات کریں گے لیکن مجھے شک ہے کہ چین رضامند ہو جائے گا۔‘
اینڈریا گھیسیلی نے کہا کہ ’اسے اسرائیل اور خاص طور پر امریکہ اشتعال انگیزی سمجھے گا اور چین کے لیے امریکہ زیادہ اہم ہے کیوں کہ بیجنگ امریکہ کے ساتھ تعلقات مستحکم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔‘