پاکستان نیول ایوی ایشن کے سابق پائلٹ لیفٹیننٹ کمانڈر (ریٹائرڈ) شواز حسین بصارت کھونے کے باوجود اپنے وژن اور حوصلے کے ساتھ ایک نئے سفر پر گامزن ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو میں شواز حسین نے کہا کہ یہ ضروری نہیں کہ اگر پر ٹوٹ جائیں تو پرواز ختم ہو جائے ’ہم پروں سے نہیں بلکہ حوصلوں سے اڑا کرتے ہیں۔ میری اڑان اب بصارت سے نہیں بلکہ بصیرت سے ہے۔‘
شواز حسین کی عمر لگ بھگ 25 سال تھی جب 2011 میں ایک سرجری کے دوران پیچیدگی کے باعث وہ بصارت سے محروم ہو گئے تھے۔
انہوں نے کہا کہ زندگی میں اصل امتحان گرنے کے بعد اٹھنے کا ہوتا ہے، اور وہ بصارت کھونے کے باوجود اپنے وژن اور حوصلے کے ساتھ ایک نئے سفر پر گامزن ہیں۔
نیول ایوی ایشن کے سابق افسر نے بتایا کہ پائلٹ بننا ان کا بچپن کا خواب تھا جو اللہ نے پورا کیا، مگر جب وہ بینائی سے محروم ہوئے تو ان کی زندگی نے ایک نیا رخ اختیار کیا۔
شواز حسین اس وقت سماجی خدمات کے میدان میں سرگرم ہیں۔ انہوں نے اپنی این جی او میڈے فاؤنڈیشن کے ذریعے معذور افراد کی فلاح کے لیے کام شروع کیا ہے۔
اس کے ساتھ ساتھ وہ ’سکول آف موٹیویشن‘ کے ذریعے نوجوانوں کو لیڈرشپ اور اخلاقی تربیت فراہم کر رہے ہیں، جبکہ ان کی اپنی اے آئی کمپنی بھی معذور افراد کے لیے ڈیجیٹل حل پر کام کر رہی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وہ ایک مصنف بھی ہیں اور اب تک تین کتابیں شائع کر چکے ہیں، جن میں ان کی بائیوگرافی ‘The Journey from Sight to Vision بھی شامل ہے۔
پاکستان میں معذور افراد کے حقوق
شواز حسین نے معذور افراد کے مسائل پر بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں عالمی ادارہ صحت (WHO) کے مطابق 3 کروڑ 30 لاکھ سے زائد افراد مختلف اقسام کی معذوری کا شکار ہیں، لیکن ان کے حقوق پر قانون موجود ہونے کے باوجود عملی نفاذ نہیں ہوتا۔
’ہم چاہتے ہیں کہ پاکستان کی پارلیمنٹ میں معذور افراد کے لیے مخصوص نشستیں رکھی جائیں تاکہ وہ اپنے حقوق کی مؤثر نمائندگی کر سکیں۔ یہ نہ صرف ملک کے لیے ایک مثبت تاثر ہوگا بلکہ معاشرے کو ایک بڑی انسانی اور معاشی طاقت بھی ملے گی۔‘
امید اور حوصلے کا پیغام
شواز حسین نے کہا کہ زندگی میں مشکل لمحے ضرور آتے ہیں مگر وہی نئے سفر کی شروعات ہوتے ہیں۔
’جب سب کچھ ختم ہو جائے تو وہیں سے زیرو کا آغاز ہوتا ہے، اور زیرو کے بعد نیا سفر شروع ہوتا ہے۔ ہر اندھیری رات کے بعد ایک روشن صبح آتی ہے۔ ہمیں ہمت اور یقین کے ساتھ اپنی منزل کی طرف بڑھتے رہنا چاہیے۔‘