مصنوعی ذہانت کے معروف بوٹ ’چیٹ جی پی ٹی‘ بنانے والی کمپنی ’اوپن اے آئی‘ کے سربراہ سیم آلٹ مین نے اشارہ دیا ہے کہ ’ڈیڈ انٹرنیٹ تھیوری‘ میں کچھ حقیقت ہو سکتی ہے۔
’ڈیڈ انٹرنیٹ تھیوری‘ ایک سازشی نظریہ ہے جس کے مطابق انٹرنیٹ پر موجود زیادہ تر مواد اور بظاہر نظر آنے والے لوگ دراصل خودکار طور پر کمپیوٹروں کے ذریعے تخلیق کیے جا رہے ہیں اور انٹرنیٹ کا زیادہ تر حصہ ’مردہ‘ ہو چکا ہے۔
اگرچہ اس نظریے کو اکثر غلط ثابت کیا گیا لیکن گذشتہ برسوں میں مصنوعی ذہانت کے نظاموں کے بڑے پیمانے پر پھیلاؤ اور پلیٹ فارم ’ایکس‘ پر چیٹ بوٹس کے خلاف ناکام کوششوں کا مطلب یہ ہے کہ اسے دی جانے والی اہمیت میں اضافہ ہو رہا ہے۔
اب آلٹ مین نے اشارہ دیا ہے کہ اگرچہ وہ پہلے اس نظریے کو نہیں مانتے تھے لیکن اس میں کچھ سچائی ہو سکتی ہے۔
انہوں نے لکھا ’میں نے کبھی ڈیڈ انٹرنیٹ تھیوری کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا، لیکن ایسا لگتا ہے کہ اب واقعی مصنوعی ذہانت کے ذریعے چلنے والے ٹوئٹر اکاؤنٹس موجود ہیں۔
ایل ایل ایمز یعنی لارج لینگویج ماڈلز وہ ٹیکنالوجی ہے جو چیٹ جی پی ٹی کے ساتھ ساتھ اینتھروپک کے کلاؤڈ جیسے دیگر مشابہ پلیٹ فارمز کی بنیاد ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کے اس بیان پر سخت ردعمل سامنے آیا۔
صارفین نے کہا کہ اوپن اے آئی کے سربراہ کی حیثیت سے ان کا کردار براہ راست اسی مسئلے میں حصہ ڈال رہا ہے جس کے بارے میں وہ خبردار کر رہے ہیں۔
2022 کے اختتام پر چیٹ جی پی ٹی کو عوامی طور پر متعارف کرانے کے بعد اسی طرح کے دوسرے اے آئی سسٹمز کی آن لائن بھرمار نظر آئی اور اس طرح اس نے حقیقی اور غلط ارادے والے دونوں طرح کے صارفین کے لیے آن لائن پلیٹ فارمز پر خودکار طور پر مواد اور پوسٹس تیار کرنا بہت آسان بنا دیا۔
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ آلٹ مین کا ٹویٹ ان کے ’ورلڈ نیٹ ورک‘ والے منصوبے سے جڑا ہو سکتا ہے جسے 2019 میں ’ورلڈ کوائن‘ کے نام سے شروع کیا گیا تھا۔
کمپنی کا کہنا ہے کہ اس کا مقصد انسانوں کے لیے آنکھوں کی سکیننگ کے ذریعے آن لائن حقیقی شناخت ثابت کرنے کا طریقہ وضع کرنا ہے جسے آن لائن اے آئی کی مدد سے چلنے والے نظاموں کے اثر کو روکنے کے طریقے کے طور پر پیش کیا گیا۔