جاپان کے وزیرِاعظم شیگرو ایشیبا نے اعلان کیا ہے کہ وہ استعفیٰ دے رہے ہیں۔ یہ فیصلہ ایسے وقت میں آیا ہے جب محض دو ماہ قبل ہی ان کی لبرل ڈیموکریٹک پارٹی (ایل ڈی پی) نے ایوان بالا کے انتخابات میں اکثریت کھو دی تھی۔
مسٹر ایشیبا ایک سال سے بھی کم عرصہ اقتدار میں رہے، لیکن جولائی کے انتخابات میں بھاری شکست کے بعد اپنی ہی جماعت کے دائیں بازو کے دھڑے کے استعفے کے مطالبات کا سامنا کرنا پڑا، جب کہ عوام مہنگائی اور معاشی جمود پر برہمی کا اظہار کر رہے تھے۔‘
قدامت پسند ایل ڈی پی اور اس کے اتحادی کومیتو کو ایوانِ بالا میں کنٹرول برقرار رکھنے کے لیے 50 نشستیں درکار تھیں، لیکن وہ صرف 47 جیت سکے، جب کہ قوم پرست دائیں بازو کی جماعتوں کی حمایت میں اضافہ دیکھا گیا۔
ایشیبا نے اتوار کی شام مقامی وقت چھ بجے ٹوکیو میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ وہ ایل ڈی پی کی صدارت سے استعفیٰ دینے کا ارادہ رکھتے ہیں اور ایک نئے رہنما کے انتخاب تک وزیرِاعظم کے طور پر کام جاری رکھیں گے۔
انہوں نے پریس کانفرنس میں کہا کہ انہوں نے فیصلہ کیا ہے کہ ’یہ مستعفی ہونے کا درست وقت ہے‘ کیونکہ انہوں نے امریکی محصولات میں نرمی کے لیے ایک معاہدہ کر لیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے ایل ڈی پی کے جنرل سیکریٹری سے فوری طور پر جماعت کی قیادت کے انتخابات کا انعقاد شروع کرنے کی درخواست کی ہے۔
سابق وزیرِ دفاع ایشیبا نے گذشتہ اکتوبر میں اقتدار سنبھالا تھا اور وہ ایل ڈی پی کے اعتدال پسند دھڑے کے نمائندہ چہرے تھے۔
انہوں نے قبل از وقت انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا، امید تھی کہ عوامی حمایت کا فائدہ ملے گا، لیکن اس کے برعکس ان کی جماعت اکثریت کھو بیٹھی، جس سے جاپان کئی برسوں بعد سیاسی غیر یقینی صورت حال میں داخل ہو گیا۔
ان کا استعفیٰ ایک دن پہلے آیا جب ایل ڈی پی اس بات پر غور کرنے والی تھی کہ آیا خصوصی قیادت کا انتخاب کرایا جائے، جو ان کی حکومت پر دراصل عدم اعتماد کے مترادف ہوتا۔
حالیہ دنوں میں ایل ڈی پی کے ارکانِ پارلیمان اور نمائندوں کے پولز میں ان کے خلاف جھکاؤ نمایاں ہو گیا تھا۔ یومیوری اخبار کے مطابق، جمعہ کو 149 ارکان نے قیادت کے انتخاب کے حق میں رائے دی جبکہ صرف 48 اس کے مخالف تھے۔
یومیوری اخبار نے جمعے کو جن سے رابطہ کیا ان میں سے 149 نے قیادت کے انتخاب کے حق میں رائے دی، جبکہ صرف 48 نے اس کی مخالفت کی۔
ایشیبا اپنے عہدہ سنبھالنے کے لمحے سے ہی قیادت میں اعتماد پیدا کرنے میں ناکام رہے۔ انہوں نے فومیو کشیدا کی جگہ لی تھی جو تین برس تک وزیرِاعظم رہے، لیکن ان کے دور میں سیاسی فنڈز کے سکینڈل نے حکمران جماعت پر اعتماد کو شدید نقصان پہنچایا تھا۔
یونیورسٹی آف ٹوکیو کے ماہرِ سیاسیات پروفیسر یو اوچی یاما کا کہنا ہے مسٹر ایشیبا کا نام اب ان جاپانی وزرائے اعظم کی طویل فہرست میں شامل ہو جائے گا جنہوں نے مختصر مدت کے لیے اقتدار کا لطف اٹھایا۔ اگرچہ وہ نچلی سطح کے اراکین کی حمایت سے قائد بنے تھے، لیکن ان کے پاس ایل ڈی پی کے ارکانِ پارلیمان میں ہمیشہ ’انتہائی کمزور حمایت‘ رہی۔
انہوں نے دی انڈیپنڈنٹ کو بتایا: ’ان کی طاقت کی بنیاد اتنی کمزور تھی کہ وہ اپنی مرضی کے مطابق کچھ کرنے کے قابل ہی نہ تھے۔‘
سات فروری کو مسٹر ایشیبا دنیا کے اولین رہنماؤں میں سے ایک تھے جنہوں نے وائٹ ہاؤس کا دورہ کیا اور رپبلکن ڈونلڈ ٹرمپ کی دوسری مدتِ صدارت کے آغاز کے بعد ان سے ملاقات کی۔ اپریل میں دونوں کی دوبارہ ملاقات ہوئی جب ایشیبا جاپانی مصنوعات پر بھاری ’باہمی‘ محصولات سے بچنے کی کوشش کر رہے تھے۔
جولائی کے سخت ایوانِ بالا انتخابات کے فوراً بعد، تجارتی مذاکرات کو ذاتی طور پر آگے بڑھانے کی ان کوششوں کے نتائج سامنے آتے دکھائی دیے، جب ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ’بڑے‘ معاہدے کا اعلان کیا جس کے تحت محصولات میں کمی کے بدلے امریکہ میں 550 ارب ڈالر کی جاپانی سرمایہ کاری شامل تھی۔
ایشیبا نے اس معاہدے کو ’ون ون‘ پیش رفت قرار دیا لیکن کہا کہ اس پر عمل درآمد سب سے بڑا چیلنج ہوگا، اور عہد کیا کہ اس پر عمل یقینی بنانے کے لیے وہ عہدے پر قائم رہیں گے۔
اہم صنعتوں کے لیے کئی ہفتوں کی غیر یقینی صورت حال پیدا ہوئی۔ جاپانی حکام کو معاہدہ طے پانے کے چند دن بعد ہی یہ معلوم ہوا کہ اس کے نتیجے میں موجودہ محصولات میں کمی کے بجائے ان پر 15 فیصد اضافہ ہو گیا ہے۔ بعد ازاں واشنگٹن نے تسلیم کیا کہ ایک غلطی ہوئی ہے، لیکن کہا کہ اس کو درست کرنے کے حکم پر عمل درآمد میں مزید دو ہفتے لگیں گے۔
اتوار کو اپنی پریس کانفرنس میں ایشیبا نے ان معاشی چیلنجز کا ذکر کیا جن کا ملک سامنا کر رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت نے }مشکل میں مبتلا افراد کی مدد{، ین کی کمزور حالت کو بہتر بنانے اور روزمرہ کی بنیادی اشیا مثلاً چاول کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کو کم کرنے کے لیے کام کیا۔
انہوں نے کہا: ’امریکہ-جاپان اتحاد ترقی کر رہا ہے۔ میری صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ کئی بار ملاقاتیں اور ٹیلی فون پر بات ہوئی۔ ہم امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات مزید مضبوط کریں گے اور یہ وہ چیز ہے جو ہمیں بہرحال کرنی چاہیے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ یہ ’افسوس کی بات‘ ہے کہ انہیں اب مستعفی ہونا پڑ رہا ہے بجائے اس کے کہ وہ اپنی سفارتی کوششیں جاری رکھتے، لیکن وہ یہ مشن اگلے رہنما کو منتقل کر دیں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا کہ مستعفی ہونا ایک ’انتہائی مشکل فیصلہ‘ تھا، لیکن انہوں نے جولائی کے انتخابات میں شکست کی ذمہ داری قبول کی اور اعتراف کیا کہ وہ ایل ڈی پی میں بڑھتی ہوئی اندرونی تقسیم سے فکرمند ہیں۔
انہوں نے خبردار کیا کہ اعتدال پسند قدامت پسند جماعت پر اعتماد میں کمی سے جاپانی سیاست ’عوامیت پسندی‘ کی طرف پھسل سکتی ہے۔
اب ایشیبا کی جگہ لینے کے لیے دو اہم امیدوار سامنے آئے ہیں۔ ایک دائیں بازو کی زیادہ سخت گیر رہنما سانائے تاکائچی ہیں، جو گذشتہ سال قیادت کے انتخاب میں دوسرے نمبر پر آئی تھیں اور اگر جیت جاتیں تو جاپان کی پہلی خاتون وزیرِاعظم بن جاتیں۔
امکان ہے کہ انہیں ایل ڈی پی کے طاقتور سخت گیر دھڑے کی حمایت حاصل ہو گی اور پروفیسر اوچیا ما کے مطابق وہ ’ان ووٹروں کو واپس لا سکتی ہیں جو فی الحال سانسیٹو جیسی زیادہ دائیں بازو کی جماعتوں کو ووٹ دے رہے ہیں۔‘
دوسرے اہم امیدوار شِنجیرو کوئزومی ہیں، جو زیادہ اعتدال پسند اور اصلاحات کے حامی رہنما سمجھے جاتے ہیں اور اعتدال پسند ووٹروں کو اپنی طرف مائل کرنے کی بہتر صلاحیت رکھتے ہیں۔
سیول کی ایہوا ویمنز یونیورسٹی میں بین الاقوامی مطالعات کے پروفیسر لیف ایرک ایزلی کا کہنا ہے کہ ایل ڈی پی جس سمت کا انتخاب کرے گی، اس کے خطے کی خارجہ پالیسی پر نمایاں اثرات مرتب ہوں گے، کیونکہ جاپان اور جنوبی کوریا امریکہ کے اہم سٹریٹجک شراکت دار ہیں۔
انہوں نے کہا: ’جاپان کا اگلا وزیرِاعظم ٹرمپ کے دفاعی اخراجات بانٹنے کے مطالبات اور جنوبی کوریا کے تاریخی حساس معاملات میں غیر متوقع کردار ادا کر سکتا ہے، چاہے وہ تاکائچی کی طرح زیادہ قوم پرست ہوں یا کوئزومی کی طرح نئی نسل کے نقطۂ نظر کے حامل۔
’ٹوکیو، واشنگٹن اور سیول کے درمیان سہ فریقی تعاون پر کڑی نظر رکھی جائے گی، خاص طور پر اس کے بعد جب شی جن پنگ، ولادی میر پوتن اور کم جونگ اُن نے بیجنگ میں کھل کر یکجہتی کا مظاہرہ کیا ہے۔‘
© The Independent