دس دن جاپانی گڑیا کے دیس میں

ایک پاکستانی ڈاکٹر نے جاپانی ثقافت میں ایسا کیا دیکھا جس نے اسے چونکا دیا؟

جاپان میں چائے ایک خصوصی رسم میں پی جاتی ہے جس کے لمبے چوڑے آداب ہیں (اینواتو)

جاپانی گڑیا، ڈیک، وی سی آر، ایٹم بم، ابن انشا کا سفرنامہ، قرۃ العین حیدر کی 50 کی دہائی کی تحریر اور ہارا کیری کی رسم۔ یہ ہماری عمر بھر کی جاپان سے شناسائی تھی۔

پھر ایک روز جاپان کی سائیکاٹری اور نیورالوجی کی سوسائٹی نے ہمیں ایوارڈ کے لیے نامزد کیا اور وہ بھی ان دنوں میں کیا جب ہم مشرق کو مختلف زاویوں سے کھنگال رہے تھے۔ سامان باندھتے ہی بنی۔

جاپان پہنچ کر دیکھا تو سوچا کہ بلند و بالا عمارتوں اور بلٹ ٹرینوں کے بارے میں تو سب لوگ جانتے ہی ہوں گے، کیوں نہ وہاں کے معاشرے کی عجیب اقدار اور رویوں کی کچھ جھلکیاں دکھائی جائیں۔

پہلے کانفرنس کے میزبانوں سے میل ملاپ کی طرف چلتے ہیں۔ عینی بی بی نے 70 سال پہلے درست لکھا تھا کہ یہاں کے لوگ جھک جھک کر مار ڈالتے ہیں۔ سٹیج پہ ایوارڈ دیتے ہوئے سوسائٹی کا صدر اتنی دفعہ جھکا کہ ہمیں لگا اس کی کمر کی ڈسک ہی سلپ نہ ہو جائے۔

نوجوان سائیکاٹرسٹ بھی یا پی ایچ ڈی کر چکے ہیں یا کر رہے ہیں، اپنے شعبے اور پھر اپنے ملک کے بارے میں سب جانتے ہیں پر باہر کی دنیا میں دلچسپی انتہائی محدود ہے۔ مشکل میں خطے کے لوگوں کی مدد کرنے پہ یقین رکھتے ہیں مگر اک فاصلہ رکھ کے۔

یہاں پانچ دن تک مختلف ممالک سے آئے ہوئے نوجوان ماہرین ذہنی صحت کے ساتھ انفرادی میل جول بھی رہا۔ سب فوراً گھل مل گئے۔ پہلے ہی دن شام کو موسیقی اور ڈرنکس  پر بےتکلفی رہی، پر جاپانی کولیگ یہاں اک محسوس ہونے والا فاصلہ رکھتے رہے۔ اچھے میزبان اور پروفیشنل کولیگ کے سارے حقوق ادا کرتے رہے مگر وہی اک کم  سمجھ میں آنے والا فاصلہ برقرار رہتا رہا۔

عینی لکھتی ہیں کہ ’گروہ کے احساس سے محرومی ہمیشہ سے اس قوم کی اک خصوصیت رہی ہے۔‘

اب ذرا بسوں اور ٹرینوں میں جھانکتے ہیں۔ ہر جاپانی یا اونگھ رہا ہے یا موبائل پہ مگن ہے۔ ایک ساتھ دو یا زائد لوگوں کے سفر کرنے کا رجحان کم ہے اور کوئی کر بھی رہا ہو تو جاپانی گپ شپ لگا کر وقت کاٹنے پر یقین نہیں رکھتے۔

مسکراتے بھی شاید کچھ ماہ بعد جبڑوں کو اکڑاہٹ سے بچانے کے واسطے ہی ہیں۔ عینی بی بی نے 1957 میں لکھا تھا کہ یہ جنوں کی قوم ہے، ہر ناممکن کام کر ڈالتی ہے۔ آج کے دور میں انسانوں اور آلات دونوں سے ایسی باؤنڈری سیٹنگ کر رکھی ہے کہ عقل دنگ رہ جائے۔ فون پہ کام جتنا مرضی کرو، کسی سے کال ملا کر بات شروع  کر لو تو یوں گھورتے ہیں کہ گناہ کر لیا ہو۔

بھوک لگے تو بس میں کچھ کھا بھی نہیں سکتے۔ بڑا سخت معاشرہ ہے بھائی! کوڑے دانوں کے معاملے کی سختی تواس سے بھی سوا ہے۔ کوڑے کو اپنی وراثت سے زیادہ سنبھال سنبھال کر رکھنا پڑتا ہے۔ ہم نے سوچا تھا کہ صفائی کا یہ میعار کوڑےدانوں کی بہتات کے باعث ہو گا مگر معاملہ الٹا نکلا۔ عوامی جگہوں، پارکوں اور ٹرینوں پر خال خال ہی کوئی کوڑے دان دکھائی دیے۔ ٹرینوں پر بھی یہی بات دہرائی جاتی ہے کہ اپنا کوڑا اپنے ساتھ لے کر اتریں۔ صفائی کے معاملے میں ذمہ دار کلی طور پر عوام کو ہی ٹھہرایا گیا ہے۔

جاپان میں داخل ہوتے ہی جو چیز بہت جدید اور راحت بخش لگی، وہ ہے یہاں کے کموڈ۔ پبلک ٹوائلٹ کے ہوں یا پانچ ستاروں والے ہوٹل کے، جناتی حد تک آٹومیٹک اور یوزر فرینڈلی ہیں۔ سیٹ کا درجہ حرارت ہو، نیچے سے آنے والی پانی کی دھار کا پریشر ہو یا والیم سب سیٹ ہو جاتا ہے۔ یہاں تک کہ جس جگہ آپ چاہتے ہیں کہ دھار لگے وہ بھی اک بٹن سے سیٹ ہو جاتی ہے۔ بٹنوں کا اک جال سا کموڈ کے ساتھ بچھا ہے جس کو سمجھ کر کچھ دیر کو آپ کی زندگی پرسکون ہو سکتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مغرب سے مختلف، صاف اور سیف ٹوائلٹ سسٹم جدید جاپانی تہذیب کا اہم حصہ ہے۔    

پارکوں اور سیاحتی مقامات کی بات بھی کر لیتے ہیں۔ ہمیں 13 سال پرانا دوستوں کے ساتھ دبئی کا ٹرپ یاد آیا جب ٹرپ کا ٹائم ٹیبل دیکھ کر اک دوست جانے سے انکاری ہو گیا تھا کہ یہ سیر ہے یا سزا ہے۔ اس کو جاپان سے خاص میسج کیا کہ بھائی تم دنیا میں کہیں بھی سیاحت کے لیے چلے جانا پر جاپان نہ آنا کہ یہاں سیر و سیاحت بھی اک قاعدے اور مقررہ اوقات کے تحت ہی ہوتی ہے۔

پانچ بجے کا ٹائم ہے تو ایک منٹ اوپر ہوجانے پر گڈی اگے ٹر جاندی اے۔  ٹور گائیڈ نرم لہجے میں دے دھمکی ہی رہی ہوتی ہے کہ وقت پہ نہ آئے تو ہمارے پہ نہ رہنا۔ ٹرینوں کا جال بچھا ہے مگر مجال ہے جو کوئی ٹرین کچھ سیکنڈ بھی لیٹ ہو جائے اور اگر کبھی کوئی لیٹ ہو جائے تو یہ اس روز کی خاص خبر ہوتی ہے۔

دہائیوں سے اس خطے میں مستقبل حال اور ماضی اکٹھے ہی سفر کرتے ہیں۔ یہ ماڈرن ہوتے چلے جاتے ہیں پر مغربی نہیں ہوتے ہیں۔  

ٹی سیریمنی یا چائے کی تقریب جاپانی کلچر کا اہم حصہ تھا سو اس کو من و عن ادا کر کے دیکھا۔ ان کا تو کلچر ہے پر دوسروں کے لیے سزا کہیے۔

چینیوں نے سالوں پہلے ماچا کو چائے کے طور پر استعمال کیا تھا۔ زین مونکس جو ہندوستان سے چین آئے تھے، جاگ کر عبادت کے واسطے ماچا چائے پینے لگے اور پھر اپنے ساتھ جاپان بھی لے آئے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ جاپانی تہذیب کا بہت سا حصہ چینیوں سے مستعار ہے۔ یہاں چائے بھی پہلے چینی، کورین اور ویت نامی پیالیوں میں پی جاتی رہی پھر اک کالے رنگ کا کپ مقامی طور پر بنا لیا گیا، وابی سابی کلچر کے تحت کہ خوبصورتی سادگی میں ہے۔ جاپان میں پھر ماچا چائے کا کلچر فروغ پاتا ہی چلا گیا۔ 45 گھنٹے لمبی لمبی تقریبات بھی ہوتی ہیں جن میں ماچا کے ساتھ طعام کا بندوبست بھی ہوتا ہے۔

یہ انتہائی فارمل تقریب ہوتی ہے۔ نہ نہ کرتے بھی کچھ گھنٹے تو لگ ہی جاتے ہیں۔ فرش کی چٹائی میں کالی پٹی بتلاتی ہے کہ یہ چائے کا کمرہ ہے۔ کویوتو میں چائے کمرے کی دیواروں کا رنگ بھی ہلکا سبز  ماچا کے رنگ کا ہوتا ہے۔ یہاں اگائی ماچا خاص سمجھی جاتی ہے۔ ہمیں بھی کمونو پہنا کر پہلے کپ کی پسند پوچھی گئی۔ اک پرانا پیالہ تھا جو جاپان میں پیالیوں کی ایجاد کے آغاز کے دور کا تھا۔

پھر کچھ موسمی کپ تھے۔ کوئی زنانہ روایت لئے تھے تو کوئی مردانہ۔ اک خوش قسمتی کی دیوی والا بھی تھا اور دو خرگوشوں والے تھے کہ یہاں کہا جاتا ہے کہ خرگوش چاند پر رہتے ہیں، جبھی چاند کا سایہ ان جیسا ہوتا ہے۔

یہاں خرگوش خوش قسمتی کی علامت بھی ٹھہرتے ہیں۔ چائے میزبان بناتا ہے اور سو قاعدوں کے تحت بناتا ہے۔ پہلے سب اپنے جوتے اتار کر جرابوں میں چائے کے کمرے میں آتے ہیں جس میں روشنی بھی مدہم ہوتی ہے کہ دھیان میل ملاپ اور چائے پہ ہو۔ میزبان کے پیچھے موسم کے حساب سے اک پینٹنگ اور گلدان میں پھول پڑے ہوتے ہیں۔ یہ سال کے دنوں کے حساب سے 24 مختلف طرح کے ہوتے ہیں۔

پھر سب دو زانو ہو کر بیٹھتے ہیں اور جھک کر سلام کرتے ہیں۔ اک کاغذ میں چار طرح کی مٹھائی اٹھا کر سامنے رکھی جاتی ہے۔ میزبان کے اک طرف گھنٹی نما برتن میں پانی گرم ہو رہا ہوتا ہے۔ وہ مہمان کے چنے ہوئے کپ کو پہلے علامتی طور پر گیلے تولیے سے صاف کرتا ہے اور پھر اس میں اک خاص انداز سے ماچا ڈالتا ہے۔ اس کے بعد گرم پانی ڈالتا ہے اور پھر دو دفعہ کپ کو گھماتا ہے۔ پھر اک برش نما چیز سے پھینٹ کر جھاگ بناتا ہے۔ اس کے بعد مہمان کا امتحان شروع ہوتا ہے۔

پہلے سامنے پڑی مٹھائی دائیں ہاتھ سے پکڑ کر اور بائیں ہاتھ کو ساتھ رکھ کر کھانا ہے۔ پھر میزبان کے پیچھے جاپانی میں کچھ پڑھنا ہے۔ اب بایاں ہاتھ کپ کے نیچے، دایاں ہاتھ ساتھ میں۔ پہلے جھکنا پھر دو دفعہ 90 ڈگری کلاک وائز گھمانا اور پھر کپ کے لیے اور ماچا اگانے والوں کے لیے جھکنا ہے اور پھر تین سپ خاموش اور آخری باآواز کہ میزبان سمجھ لے کہ آپ پی چکے ہیں۔

پھر لبوں والی جگہ کو انگلیوں سے صاف کر کے انگلیاں کاغذ سے صاف کرنا ہے۔ اس کے بعد کپ کو دو دفعہ 90 کے زاویے پر انٹی کلاک وائز گھمانا ہے اور پھر کپ کو پہلے دائیں اور پھر بائیں سے دیکھنا کہ یہ اس کپ کو خدا حافظ ہے۔ دوبارہ شاید یہ کپ آپ کو کبھی دیکھنا نصیب نہ ہو۔

اس تقریب کو ختم کرنا بھی ایک سائنس ہے۔ میزبان کے دائیں ہاتھ پر وہ مہمان بیٹھتا جو اس تقریب کی تاریخ کے بارے میں سب سے زیادہ جانتا ہے اور میزبان کے سوال کا جواب دے سکتا ہے۔ وہ جاپانی میں کہتا ہے، ’ختم شد‘ تو میزبان ماچا چائے بنانا روکتا ہے اور میز پر چائے بنانے کے سامان کو اک خاص طریقے سے سمیٹتا ہے۔

یہ سزا پیسے دے کر ہمیں دو دفعہ ملی کہ پہلے میزبان نے سب کیا اور پھر ہم سے کرایا۔ میزبان کی ساتھی نے آخر میں پوچھا کہ ’آپ کے ملک میں بھی چائے کی ایسی ہی تقریب ہوتی ہے؟‘ کوئی بتلاؤ کہ ہم بتلائیں کیا؟

ان سب باتوں میں چپلوں کی تبدیلی کا عمل تو ہم بھول ہی گئے۔ 

ہوٹل کے کمرے میں تو کوئی چیک نہ کرتا تھا پر کیوتو کے کیپسول ہوٹل میں جب اجتماعی قیام و طعام تھا تو چپلوں کی پابندی لازمی ٹھہر گئی۔ کامن ایریا کی علیحدہ چپلیں۔ کیپسول والے کمرے کی علیحدہ۔ باتھ روم کی علیحدہ چپلیں اور نہانے کے لیے علیحدہ چپلیں۔ یہ صفائی پسندی ہے یا خبط ہے یا کوئی مذہبی یا ثقافتی اساطیر؟ ان کو تو عادت ہے پر ہمارے لیے سزا ہی سمجھیے۔

مہنگائی جاپان کے دورے کا ایک اہم عنصر تھا۔ کہاں 70 سال پہلےکی رپورتاژ میں عینی آپا نے لکھا تھا کہ جاپان اپنی سستی اشیا کے لیے مشہور ہے اور کہاں ہم ایسا جاپان دیکھ رہے ہیں جہاں قابل خرید اشیا چینی، ملیشین یا ویت نامی یا پھر وہ جاپانی شے جو امریکہ جا کر دوبارہ امپورٹ ہو کر آئی تھی۔

عجیب لوگ ہیں کہ اپنے ملک کے واسطے مہنگی اور میعاری اشیا بناتے ہیں۔ ہمیں تو دو وقت کی روٹی اور ٹیکسی بھی دنیا بھر سے مہنگی ہی لگی۔ بنگالی اور انڈین کرنسی جاپان سے مضبوط ہیں پھر بھی انڈین اور بنگالی کولیگ مہنگائی کا غلغلہ مچاتے رہے۔ کھانے کی سرونگ مہنگی ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی مختصر بھی تھی۔ جاپانیوں کی صحت کا راز نہاں یہی تھا شاید۔

یہ دس دن عجیب تھے، مختلف تھے، کچھ مشکل بھی تھے مگر دلچسپ اور سبق آموز تھے۔ سنی سنائی بات مسلم ٹھہر گئی کہ دنیا میں اور کہیں جاؤ یا نہ جاؤ، اک مرتبہ جاپان ضرور جاؤ۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی