گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز نے 102 سالہ جاپانی شہری کیچی اکوزاوا کو ماؤنٹ فیوجی کی چوٹی سر کرنے والے سب سے عمر رسیدہ شخص کے طور پر تسلیم کرلیا ہے، حالاں کہ انہوں نے اگست میں اپنی مہم کے دوران تقریباً ہار مان لی تھی۔
اکوزاوا نے حال ہی میں امریکی خبر رساں ادارے دی ایسوسی ایٹڈ پریس کو انٹرویو میں بتایا ’میں واقعی آدھے راستے پر ہار ماننے کے قریب تھا۔ چوٹی تک پہنچنا مشکل تھا لیکن میرے دوستوں نے میرا حوصلہ بڑھایا اور نتیجہ اچھا نکلا۔
’میں یہ اس لیے کر سکا کیوں کہ اتنے زیادہ لوگوں نے میرا ساتھ دیا۔‘
انہوں نے اپنی 70 سالہ بیٹی موتوئے، اپنی نواسی، ان کے شوہر اور مقامی کوہ پیمائی کلب کے چار دوستوں کے ساتھ کوہ پیمائی کی۔
اس گروپ نے پانچ اگست کو جاپان کی 3776 میٹر (12388 فٹ) بلند چوٹی پر پہنچنے سے پہلے دو راتیں کیمپ میں قیام کیا۔
اکوزاوا اپنی 75 سالہ بیٹی یوکیکو کی مدد سے بات کر رہے تھے، جو سوالات ان کے کان میں دہراتیں کیوں کہ وہ کم سنتے ہیں۔
انہوں نے کہا ’مجھے حیرت ہے کہ میں اتنی اچھی طرح چڑھ پایا۔‘
اکوزاوا نے مزید کہا کہ وہ اپنی عمر کو سامنے رکھتے ہوئے کسی بھی پہاڑ کو معمولی نہیں سمجھتے۔ ’بہتر ہے کہ جب تک کوہ پیمائی کر سکتے ہو کر لو۔‘
یہ اکوزاوا کی ماؤنٹ فیوجی پر پہلی ریکارڈ توڑ چڑھائی نہیں تھی۔ وہ 96 برس کے تھے جب پہلی بار ملک کے سب سے مشہور پہاڑ پر سب سے زیادہ عمر میں چڑھنے والے بنے۔
ان چھ برسوں میں وہ دل کے مسائل، جسم پر نکلنے والے دانوں کے مرض اور چڑھائی کے دوران گرنے کے بعد لگنے والے زخموں سے صحت یاب ہوئے۔
اکوزاوا نے ماؤنٹ فیوجی پر چڑھنے سے پہلے تین ماہ تربیت حاصل کی۔
وہ صبح پانچ بجے اٹھتے، ایک گھنٹے کی واک کرتے اور تقریباً ہر ہفتے ایک پہاڑ پر چڑھتے، زیادہ تر ناگانو کے علاقے کے قریب جو مرکزی جاپان میں گنما کے علاقے کے مغرب میں ہے۔
ٹوکیو سے تقریباً 241 کلومیٹر (150 میل) شمال مغرب میں مائی باشی میں اپنے گھر پر، رشتہ داروں سے گھِرے اور پہاڑوں کی فریم شدہ تصویروں کے درمیان، اکوزاوا کو یاد آیا کہ 88 سال پہلے انہیں پہاڑوں کی طرف کس چیز نے کھینچا۔
چوٹی تک پہنچنے کے جادو کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا لیکن وہ لوگ ہی تھے جنہوں نے انہیں بار بار واپس آنے پر مجبور کیا۔
وہ کہتے ہیں ’میں پہاڑ پر چڑھتا ہوں کیوں کہ یہ مجھے اچھا لگتا ہے۔ پہاڑ پر دوست بنانا آسان ہوتا ہے۔‘
خاندان نے بتایا کہ اکوزاوا لائق طالب علم تھے۔ انہوں نے انجن ڈیزائن انجینیئر کے طور پر کام کیا اور بعد میں مویشیوں کی مصنوعی بارآوری کرنے والے ماہر کے طور پر۔
یہ پیشہ انہوں نے 85 سال کی عمر تک جاری رکھا۔ اکوزاوا نے کہا ’چاہے پڑھائی پسند ہو یا نہ ہو، آپ پہاڑ کا لطف ایک جیسا اٹھا سکتے تھے۔
’وہاں ذہانت کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ ہم سب ایک جیسے تھے اور ایک ساتھ آگے بڑھتے تھے۔‘
اکوزاوا نے تنہا کوہ پیمائی کا لطف اٹھایا لیکن چوں کہ بڑھتی عمر کے ساتھ ان کی جسمانی طاقت میں کمی آتی گئی اس لیے انہیں دوسروں سے زیادہ مدد لینی پڑی۔
گذشتہ ماہ ان کی ریکارڈ کوہ پیمائی ایک اور امتحان تھا جس میں انہوں نے دوسروں کی مدد سے کامیابی حاصل کی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا کہنا تھا کہ ’فیوجی کی چڑھائی بہت مشکل نہیں لیکن اس بار یہ چھ سال پہلے کی نسبت زیادہ مشکل تھی۔
’کسی بھی گذشتہ پہاڑ کی نسبت زیادہ مشکل۔ میں نے خود کو اتنا کمزور کبھی محسوس نہیں کیا۔
’مجھے درد نہیں ہوا لیکن میں حیران ہوتا رہا کہ میں اتنا سست کیوں ہوں مجھ میں زیادہ ہمت کیوں نہیں۔
’میں اپنی جسمانی حد سے بہت آگے نکل چکا تھا، اور یہ دوسروں کی طاقت کی بدولت ہی تھا کہ میں اسے سر کر پایا۔‘
اکوزاوا سے پوچھا گیا کہ کیا وہ دوبارہ ماؤنٹ فیوجی پر کوہ پیمائی کی کوشش کریں گے۔
انہوں نے کہا ’میں ہمیشہ کے لیے کوہ پیمائی کرنا چاہتا ہوں لیکن مجھے لگتا ہے کہ اب میں ایسا نہیں کر سکتا۔ اب میں ماؤنٹ آکاگی کی سطح پر ہوں۔‘
یہ ایک قریبی چوٹی ہے جس کی اونچائی فیوجی سے تقریباً آدھی ہے۔ اس چوٹی کی اونچائی 18287 میٹر ہے۔
ان دنوں اکوزاوا اپنی صبحیں بزرگوں کی دیکھ بھال کے مرکز میں رضاکارانہ طور پر کام کرتے ہوئے اور اپنے گھر کے سٹوڈیو میں مصوری سکھاتے ہوئے گزارتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ پہاڑ پر چڑھنا اور مصوری وقت اور لگن کا تقاضہ کرتے ہیں لیکن دونوں کاموں سے سکون ملتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’جو لوگ پہاڑوں پر چڑھتے ہیں، جو لوگ مصوری کرتے ہیں اگر وہ اس راستے میں کوئی کام مکمل کر سکیں، تو یہ سب سے زیادہ اطمینان بخش بات ہوتی ہے۔‘
اکوزاوا کی بیٹیاں چاہتی ہیں کہ وہ فیوجی کی طلوع آفتاب کے وقت تصویر بنائیں تاکہ ان کے رہائشی کمرے کی دیواروں پر پہاڑی سلسلوں کی تصویروں میں اگلا اضافہ ہو۔
انہوں نے کہا کہ ’مجھے بہت ساری درخواستیں موصول ہوئی ہیں۔‘ ان کی اس بات پر اکٹھا ہونے والا خاندان ہنس پڑا۔
’میں ماؤنٹ فیوجی کی چوٹی کے کچھ مناظر پینٹ کرنا چاہتا ہوں۔ ایسی جگہیں جو میری خاص یادیں ہیں کیوں کہ یہ شاید آخری بار تھا کہ جب میں چوٹی پر پہنچا۔‘
© The Independent