قطر کے دارالحکومت دوحہ میں منگل کو اسرائیل نے حماس کی اعلیٰ قیادت کو نشانہ بنایا۔ تاہم حماس کے ایک رہنما کا کہنا ہے کہ حملے میں ان کی قیادت محفوظ رہی۔
حماس کے سیاسی بیورو کے رکن سہیل الہندی نے الجزیرہ کو بتایا کہ تنظیم کی قیادت ’بزدلانہ قتل کی کوشش میں محفوظ رہی۔‘
قدس پریس کے مطابق حملے کا ہدف مذاکرات کے لیے دوحہ میں موجود حماس رہنما خلیل الحیہ، خالد مشعل، محمد درویش، غازی حمد، عزت الرشق اور موسیٰ ابو مرزوق تھے۔
قطر کی وزارت داخلہ نے بتایا کہ اسرائیلی حملے میں ڈیوٹی پر موجود قطری داخلی سکیورٹی فورس کا ایک اہلکار جان سے گیا جبکہ دو زخمی ہو گئے۔
اسرائیل نے اس کارروائی کی ’پوری ذمہ داری‘ قبول کی ہے۔
اے ایف پی کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے حملے پر عدم اتفاق کا اظہار کیا ہے۔
وائٹ ہاؤس کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ اگرچہ حماس کا خاتمہ ایک ’قابلِ تحسین ہدف‘ ہے، تاہم دوحہ میں کارروائی ’نہ تو اسرائیل اور نہ ہی امریکہ کے مقاصد کو آگے بڑھاتی ہے۔‘
وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کیرولین لیویٹ کے مطابق صدر ٹرمپ نے اس بات پر افسوس ظاہر کیا کہ یہ حملہ ایک ایسے ملک میں کیا گیا جسے وہ امریکہ کا قریبی دوست اور مضبوط اتحادی سمجھتے ہیں۔
پاکستان، سعودی عرب، کویت، متحدہ عرب امارات، ایران اور اقوام متحدہ کے سربراہ نے اسرائیلی حملے کی مذمت کی ہے۔
آج قطر کے دارالحکومت دوحہ میں کئی دھماکوں کی آوازیں سنی گئیں، جس کے بعد اسرائیلی چینل 14 نے ایک سینیئر اسرائیلی عہدے دار کے حوالے سے دعویٰ کیا کہ ’ہم نے قطر میں حماس کی قیادت کو نشانہ بنایا ہے، جن میں خلیل الحیہ اور ظہیر جبارین شامل ہیں اور نتائج کے منتظر ہیں۔‘
اسرائیلی چینل 14 کے مطابق یہ حملہ جنگی طیاروں سے کیا گیا۔
’حماس رہنما محفوظ رہے‘
قدس پریس کے مطابق حماس کے ایک قریبی ذریعے نے بتایا کہ تنظیم کا ایک اعلیٰ سطحی وفد، جس کی قیادت خلیل الحیہ کر رہے تھے، اسرائیل کے ایک فضائی حملے میں محفوظ رہا۔
یہ حملہ قطری دارالحکومت دوحہ میں اُس مقام پر کیا گیا جہاں اجلاس جاری تھا۔
قدس پریس کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتانے والے ذریعے کے مطابق اس مقام کو نشانہ بنایا گیا جہاں خلیل الحیہ، خالد مشعل، محمد درویش، غازی حمد، عزت الرشق اور موسیٰ ابو مرزوق موجود تھے۔
ذریعے نے مزید بتایا کہ اس کارروائی کے نتیجے میں حماس کے کچھ ارکان جان سے گئے، تاہم اموات کی تعداد یا ان کی شناخت نہیں بتائی گئی۔
ذرائع کے مطابق یہ فضائی حملہ اسرائیلی فضائیہ کے 10 جنگی طیاروں کی مدد سے کیا گیا، اور یہ اجلاس اصل میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے غزہ پٹی میں فائر بندی کی تازہ ترین تجویز پر غور کے لیے بلایا گیا تھا۔
خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے مطابق اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو نے کہا کہ انہوں نے دوحہ حملوں کا حکم ایک روز قبل مقبوضہ بیت المقدس میں ہونے والی اُس فائرنگ کے بعد دیا جس کی ذمہ داری فلسطینی تنظیم نے قبول کی تھی۔
نتن یاہو اور وزیر دفاع اسرائیل کاٹز نے مشترکہ بیان میں کہا ’گذشتہ روز یروشلم اور غزہ میں ہونے والے مہلک حملوں کے بعد وزیر اعظم نتن یاہو نے تمام سکیورٹی اداروں کو ہدایت کی تھی کہ حماس کی قیادت کو نشانہ بنانے کے امکان کے لیے تیاری کریں۔‘
’آج دوپہر ایک آپریشنل موقعے کے پیش نظر وزیر اعظم اور وزیر دفاع کی گذشتہ رات دی گئی ہدایت پر عمل درآمد کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسرائیلی فوج نے ایکس پر جاری بیان میں کہا آئی ڈی ایف اور آئی ایس اے نے حماس کی سینیئر قیادت کو نشانہ بناتے ہوئے ایک ’طے شدہ حملہ‘ کیا۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ حملے سے قبل عام شہریوں کو نقصان سے بچانے کے لیے اقدامات کیے گئے، جن میں درست ہتھیاروں کے استعمال اور اضافی انٹیلیجنس شامل ہے۔
اسرائیل نے حملے کی پیشگی اطلاع دی تھی: امریکہ
وائٹ ہاؤس کے ایک عہدے دار نے بتایا کہ اسرائیل نے فضائی حملے سے قبل امریکہ کو اطلاع دی تھی۔
عہدے دار نے اے ایف پی کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ’ہمیں پہلے ہی آگاہ کر دیا گیا تھا۔‘
قطر کا ردعمل
قطر نے ایک بیان میں دوحہ میں حماس کے رہنماؤں کو نشانہ بنائے جانے کو عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔
قطری وزارت خارجہ کے ترجمان نے ایکس پر جاری ایک بیان میں کہا ’ریاستِ قطر اسرائیل کے بزدلانہ حملے کی سخت مذمت کرتی ہے، جس میں دارالحکومت دوحہ میں رہائشی عمارتوں کو نشانہ بنایا گیا جہاں حماس کے سیاسی بیورو کے کئی ارکان مقیم تھے۔
’یہ مجرمانہ حملہ تمام بین الاقوامی قوانین اور ضابطوں کی صریح خلاف ورزی ہے اور قطری شہریوں اور وہاں مقیم افراد کی سلامتی و تحفظ کے لیے سنگین خطرہ ہے۔‘
بیان میں مزید کہا گیا کہ سکیورٹی فورسز، سول ڈیفنس اور متعلقہ اداروں نے فوراً کارروائی کرتے ہوئے واقعے کے اثرات کو قابو میں لانے اور شہریوں و قریبی علاقوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے اقدامات شروع کر دیے ہیں۔
’اگرچہ ریاستِ قطر اس حملے کی شدید مذمت کرتی ہے لیکن وہ اس غیر ذمہ دارانہ اسرائیلی رویے، خطے کی سلامتی میں مسلسل خلل ڈالنے اور اپنی خودمختاری و سلامتی کو نشانہ بنانے والے کسی بھی اقدام کو برداشت نہیں کرے گی۔‘
بیان کے مطابق اعلیٰ سطح پر تحقیقات جاری ہیں اور جیسے ہی مزید تفصیلات دستیاب ہوں گی انہیں جاری کر دیا جائے گا۔
خبر رساں ایجنسی اے پی کے مطابق حماس کی جلاوطن قیادت طویل عرصے سے قطر میں موجود ہے، جہاں قطر کئی برسوں سے، حتیٰ کہ غزہ میں حالیہ جارحیت سے قبل بھی، حماس اور اسرائیل کے درمیان مذاکرات میں ثالث کا کردار ادا کرتا رہا ہے۔