ملتان کے قریب سورج میانی اور سکندری نہر کے بند پر گذشتہ دس روز سے کھلے آسمان تلے بیٹھے سیلاب متاثرین میں گلناز بی بی بھی شامل ہیں جو اپنی ایک ماہ کی بچی کو گود میں لیے کبھی سہلاتی ہیں تو کبھی اپنے پانی میں ڈوبے ہوئے گھر کے بارے میں سوچتی ہیں۔
ملتان کے قریب دریائے چناب میں اونچے درجے کا سیلاب ہے جس سے ہیڈ محمد والا اور مظفر گڑھ روڈ کے قریب کئی دیہاب زیر آب آ گئے ہیں۔
انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے گلناز بی بی نے بتایا: ’یہاں سے قریب ہی ہمارا گھر تھا جسے ابھی بنایا ہی تھا لیکن اب وہاں صرف پانی ہے، گھر کی چار دیواریں گر چکی ہیں اور صحن میں پانی کھڑا ہے اب حالات یہ ہیں کہ اپنے بچوں کے ساتھ سڑک پر بیٹھی ہوں، جو رات کو مچھروں کے باعث سو بھی نہیں پاتے۔‘
رواں ماہ کے آغاز میں دریائے چناب کا ایک بڑا سیلابی ریلا ملتان میں داخل ہوا، جس سے اب تک لاکھوں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔ جنوبی پنجاب کے ایڈیشنل چیف سیکریٹری کے مطابق جنوبی پنجاب میں،سیلاب سے 13 لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے ہیں، جن میں بڑی تعداد خواتین اور بچوں کی ہے۔
انتظامیہ کی جانب سے ملتان ڈویژن میں 90 ریلیف کیمپس لگائے گئے ہیں تاہم کچھ سیلاب متاثرین نے، کھلے آسمان تلے نہر کے بند پر عارضی طور پر قیام کیا ہوا ہے۔ ان میں سے بیشتر افراد موضع کھور ساجری وہن سے تعلق رکھتے ہیں۔
ایسی ہی ایک اور متاثرہ خاتون حسینہ بی بی نے اپنے گھر کی تباہی کا منظر بیان کرتے ہوئے بتایا: ’ہمارا سب کچھ ڈوب گیا، برتن چارپائیاں مکان، کچھ نہیں بچا۔ ہم نے بڑی محنت سے اپنا پکا مکان بنایا تھا جس میں چھ سال لگے تھے لیکن ایک دم وہ سب کچھ ڈوب گیا اور اب ہم سڑک پر بیٹھے ہیں جہاں نہ برتن ہیں، نہ ٹینٹ ہے نہ واش روم ہے۔‘
حسینہ بی بی بتاتی ہیں کہ ان کے چھ بچے ہیں اور ان کے شوہر کی صحت مستقل خراب رہتی ہے جس کی وجہ سے اب وہ کام نہیں کر پاتے۔ اس بند پر بیٹھی کئی اور خواتین کی طرح حسینہ بی بی نے بھی اپنی جوان بچیوں قریبی محفوظ رشتے داروں کے ہاں بھیج دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ اپنی بیٹیوں کو کھلے اسمان تلے راستے سے گزرتے لوگوں کے سامنے نہیں بٹھا سکتیں۔
گذشتہ 10 سے 12 روز سے اس مقام پر بیٹھے ان لوگوں میں ایک بڑی تعداد خواتین کی ہے، جنہیں رفع حاجت سمیت کئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ان خواتین سے جب پوچھا کہ وہ سرکار کے لگائے کیمپس میں منتقل کیوں نہیں ہو رہے تو ان کا کہنا تھا کہ جہاں سرکار نے کیمپ لگایا ہے، اس جگہ تک کا فاصلہ کافی زیادہ ہے اور چونکہ ان کے ساتھ ان کے جانور بھی ہیں تو وہ یہیں اپنے ڈوبے ہوئے گھروں کے قریب بیٹھنا چاہتے ہیں۔
شہناز بی بی بیوہ ہیں اور وہ اکیلے اپنی چھ بچیوں کو پال رہی ہیں۔ شہناز بی بی کا گھر بھی دریائے چناب کے کنارے پر تھا جو سرکاری زمین پر بنایا ہوا تھا۔ شہناز بی بی یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ جس وقت سیلابی پانی ان کے گھر میں داخل ہونا شروع ہوا تو انہوں نے صرف اپنے مویشیوں اور اپنی بچیوں کو بچایا۔
شہناز بی بی نے مزید بتایا: ’میری بچی بیمار ہے لیکن ان کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ اب وہ اس پل پر آ بیٹھے ہیں اور یہاں پچھلے دنوں بارشیں ہونے کی وجہ سے ان کی بچی کی طبیعت کافی خراب ہے جسے وہ دو روز سے ملتان کے نشتر ہسپتال لے کر جا رہی ہیں۔ دو ماہ بعد شہناز بی بی نے اپنی ایک بیٹی کی شادی کرنا تھی اور شادی کے لیے جمع کیا ہوا سارا سامان سیلابی ریلے کی نذر ہو گیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سمیرا بی بی کو اس بند پر بیٹھے اٹھ روز ہو گئے ہیں۔ سمیرہ بی بی رفع حاجت سے جڑے مسائل کے حوالے سے بتاتی ہیں اور اس بات کا شکر ادا کرتی ہے کہ قریبی گھروں کے لوگوں نے انہیں اور ان کے بچوں کو واش روم استعمال کرنے کی اجازت دی ہوئی ہے۔
بند پر بیٹھی کئی خواتین سے بات کرنے پر معلوم ہوا کہ ان میں سے کئی خواتین کو رفع حاجت کے لیے کچھ فاصلہ طے کر کے، نہر کی دوسری جانب باغات کی جانب جانا پڑتا ہے۔
اس حال میں سمیرہ کہتی ہیں کہ ان پر آیا یہ وقت مصیبت لے کر آیا ہے لیکن وہ وہ اپنے گھروں کو لوٹنے کے لیے پر عزم ہیں۔
جیسا کہ سمیرا بی بی نے کہا: ’جیسے جیسے یہ پانی کم ہوتا چلا جائے گا وہ اور یہاں پر بیٹھے کئی لوگ اپنے تباہ ہوئے گھروں کی جانب واپس چل پڑیں گی اور انہیں دوبارہ تعمیر کرنے کی کوشش کریں گے۔‘