جنوبی پنجاب کے کئی علاقے ان دنوں شدید سیلاب کی لپیٹ میں ہیں، جہاں کشتیوں کے ذریعے امدادی سرگرمیاں جاری ہیں۔ اس دوران نجی کشتی مالکان کے متاثرین سے منہ مانگے کرائے لینے کی شکایات بھی سامنے آئیں، جس پر صوبائی حکومت نے مداخلت کرتے ہوئے انہیں معاوضہ انتظامیہ سے لینے کی ہدایت کی ہے۔
ریسکیو حکام کے مطابق اب تک صرف ملتان سے تین لاکھ 62 ہزار، رحیم یار خان سے 53 ہزار اور مظفرگڑھ سے ایک لاکھ 43 ہزار سے زائد افراد کو نکالا گیا جبکہ پانچ لاکھ 43 ہزار سے زائد مویشی بھی محفوظ مقامات پر منتقل کیے جا چکے ہیں۔
انتظامیہ کو جمعرات کو سیلاب زدہ علاقوں سے اطلاعات موصول ہوئیں کہ کئی نجی کشتی مالکان 40 ہزار سے ایک لاکھ روپے تک کرایہ مانگ رہے ہیں، جس پر حکومت نے فوری نوٹس لیتے ہوئے اعلان کیا کہ نجی کشتی مالکان کو معاوضہ حکومت ادا کرے گی۔
پنجاب کی سینیئر وزیر مریم اورنگزیب نے جمعے کو جلال پور پیروالا کے دورے کے دوران واضح کیا کہ کوئی کشتی مالک متاثرین سے براہِ راست کرایہ وصول نہیں کرے گا بلکہ انتظامیہ ان سے امدادی کاموں میں مدد لے کر خود رقم ادا کرے گی۔
انڈپینڈنٹ اردو نے اسی تناظر میں جلال پور پیر والا کے ایک کشتی مالک خدا بخش سے گفتگو کی، جن کا کہنا تھا کہ وہ بیٹ (دریائی علاقے) کے رہائشیوں کو آمدورفت کی سہولت دے کر کرایہ لیتے ہیں۔
کشتی مالک خدا بخش کہتے ہیں کہ ’جب سیلاب آیا تو زیرِ آب آنے والے گاؤں اور بستیوں کے رہائیشیوں سے وہی طے شدہ کرایہ وصول کیا، تاہم سیلاب میں چونکہ سامان اور مویشی بھی کشتیوں کے ذریعے محفوظ مقام پر منتقل کرنا تھے اس لیے کرایہ بھی زیادہ بنتا ہے۔‘
تاہم انہوں نے اس بات کی تردید کی کہ انہوں نے لوگوں سے ہزاروں روپے کرایہ مانگا۔
بقول خدا بخش: ’حکومت نے جب ہمیں کہا کہ کرایہ متاثرین کی بجائے انتظامیہ سے لیا جائے، تو ہم نے پھر فی چکر 1500 روپے کے حساب سے انتظامیہ سے لینا شروع کر دیا ہے۔‘
جلال پور پیر والا میں فدا حسین نامی ملاح نے بھی اپنے گاؤں شینی میانی سے جمعے کو سیلاب میں پھنسے 180 افراد کو بڑے بیڑے کے ذریعے محفوظ مقام پر منتقل کیا۔ اسی طرح مختلف گاؤں ایسے ہیں جہاں لوگ اپنی مدد آپ کے تحت بھی ایک دوسرے کی جان ومال بچانے میں مدد کر رہے ہیں۔
ریسکیو ترجمان فاروق احمد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ اب تک تمام اداروں کے تحت ملتان سے 3 لاکھ 62 ہزار، رحیم یار خان سے 53 ہزار اور مظفر گڑھ سے 1 لاکھ 43 ہزار سے زائد لوگوں کا انخلا اور 5 لاکھ 43 ہزار سے زائد جانوروں کو محفوظ مقام پر منتقل کیا جا چکا ہے۔
فاروق احمد نے بتایا کہ: ’اس وقت ملتان میں 162 ریسکیو کشتیاں، رحیم یار خان میں 108 اور مظفر گڑھ میں 166 کشتیاں فلڈ ریسکیو آپریشن میں مصروف ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پولیس حکام کے مطابق بعض مقامات پر کشتی مالکان نے ’بلیک میلنگ‘ کرتے ہوئے زائد کرایہ وصول کیا، جس پر ان کے خلاف کارروائی کی گئی۔
تھانہ دھور کوٹ کے پولیس افسر خالد رزاق نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’پتن بیٹ گنگا بند پر سیلابی علاقے سے بچ کر کشتی میں آنے والے متاثرین نے شکایت کی کہ ایک نجی کشتی کے مالک نے دریا کے اندر کشتی روک کر انہیں بلیک میل کیا اور مقررہ کرائے سے زیادہ وصول کیا ہے، جس پر پولیس نے اس کشتی مالک کو گرفتار کر کے ان کے خلاف مقدمہ درج کرتے ہوئے ان کی کشتی بھی ضبط کر لی۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ ’جہاں سے بھی نجی کشتی مالکان کی جانب سے زائد کرایہ وصول کرنے کی شکایت موصول ہو رہی ہیں، فوری کارروائی کی جا رہی ہے۔‘
سیلابی علاقوں میں ریسکیو سرگرمیوں میں مصروف مرکزی مسلم لیگ کے رہنما احمد علی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان سمیت کئی نجی تنظیموں کی جانب سے بھی کشتیوں کے ذریعے ریسکیو آپریشن جاری ہے۔
’جنوبی پنجاب میں ہماری 35 سے زائد کشتیاں کام کر رہی ہیں۔ اسی طرح پہلے سے چلنے والی کشتیوں کے ملاح بھی امدادی کاموں میں حصہ لے رہے ہیں۔ ہماری تنظیم بھی نجی کشتی مالکان کو معاوضہ ادا کر رہی ہے۔‘