دریائے سندھ میں گڈو بیراج پر انتہائی اونچے درجے کے سیلاب کا الرٹ

محکمہ موسمیات کے فلڈ فورکاسٹنگ ڈویژن نے دریائے سندھ میں جمعرات کو گڈو بیراج کے مقام پر انتہائی اونچے درجے اور سکھر بیراج کے مقام پر اونچے درجے کے سیلاب کا الرٹ جاری کر رکھا ہے۔

31 اگست 2022 کو لی گئی اس فضائی تصویر میں سندھ کے شہر سکھر میں شدید بارشوں کے بعد سکھر بیراج کے ساتھ دریائے سندھ میں سیلابی پانی دیکھا جا سکتا ہے (فائل فوٹو/ اے ایف پی)

حکام نے دریائے سندھ میں جمعرات کو گڈو بیراج کے مقام پر انتہائی اونچے درجے اور سکھر بیراج کے مقام پر اونچے درجے کے سیلاب کا الرٹ جاری کر رکھا ہے۔

ملک بھر میں جون کے وسط سے جاری مون سون بارشوں اور سیلابی ریلوں کے نتیجے میں اب تک نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی (این ڈی ایم اے) کے مطابق 932 افراد جان سے جا چکے ہیں اور ہزار سے زائد زخمی ہیں جبکہ مال مویشی اور املاک کا بھی نقصان ہوا ہے۔

دوسری جانب انڈیا کی جانب سے اپنے دریاؤں سے چھوڑا گیا پانی پنجاب کے دریاؤں راوی، ستلج اور چناب میں طغیانی اور اردگرد کی آبادیوں کو متاثر کرنے کے بعد اب سندھ کی طرف رواں دواں ہے۔

بدھ کو طوفانی بارشوں نے سندھ کے دارالحکومت کراچی کی سڑکوں کو بھی ڈبو دیا۔ حکام نے خبردار کیا کہ اس ہفتے دریاؤں کا کناروں سے باہر نکلنے والا پانی سندھ میں داخل ہو گا جس سے زیریں علاقوں میں تباہی کا خدشہ ہے۔

محکمہ موسمیات کے فلڈ فورکاسٹنگ ڈویژن کی جانب سے بدھ کی رات 11 بجے جاری کیے گئے الرٹ کے مطابق آئندہ 24 گھنٹوں کے دوران دریائے سندھ میں گڈو بیراج کے مقام پر انتہائی اونچے درجے کا سیلاب متوقع ہے جبکہ 24 گھنٹے کے بعد سکھر بیراج پر اونچے درجے کے سیلاب کا امکان ہو گا۔

جلال پور پیروالا، ہزاروں متاثرین سیلاب محفوظ مقامات پر منتقل: حکام

دوسری جانب حکام کے مطابق امدادی کارکنوں نے فوج کی مدد سے بدھ کو پنجاب کے شہر جلال پور پیروالا کے قریب سیلاب سے متاثرہ دیہات سے ہزاروں افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کر دیا۔

یہ امدادی کارروائیاں ایسے وقت میں کی گئیں جب حکام بڑھتے ہوئے پانی کے دباؤ سے نمٹنے کے لیے حفاظتی بند کو مضبوط بنانے میں مصروف رہے کیوں کہ پانی کی سطح خطرے کی حد تک پہنچ چکی تھی۔

امریکی خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق ریلیف کمشنر نبیل جاوید نے کہا کہ اس علاقے میں سیلاب سے تقریباً ایک لاکھ 42 ہزار افراد متاثر ہوئے ہیں۔ بے گھر ہونے والے کئی لوگ اپنے رشتہ داروں کے گھر منتقل ہو گئے جب کہ دیگر اپنے گھر ڈوبنے کے بعد راتیں حفاظتی پشتوں پر یا کیمپوں میں جاگ کر گزارنے پر مجبور ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بدھ کو ریسکیو عملے کو کشتیوں میں پانی میں مختلف مقامات کی طرف جاتے دیکھا گیا۔ انہوں نے درختوں اور چھتوں پر پھنسے لوگوں کو نکالا لیکن بہت سے محصور دیہاتیوں نے شکوہ کیا کہ جن کے پاس نجی کشتیوں کے پیسے تھے وہ فوراً نکل گئے جب کہ وہ لوگ امدادی کارکنوں کے منتظر رہے جن کے پاس رقم نہیں تھی۔

پنجاب ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی کے مطابق 23 اگست سے اب تک پنجاب کے تقریباً 4000 دیہات زیر آب آ چکے ہیں، جس سے 40 لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے۔ 21 لاکھ بے گھر ہوئے اور کم از کم 59 افراد جان سے گئے۔ اس صورت حال کی وجہ معمول سے زیادہ مون سون بارشیں اور انڈیا کی جانب سے ڈیموں سے بار بار پانی کا اخراج  ہے۔

ریلیف کیمپ میں موجود ایک متاثرہ شخص بلال احمد نے کہا ’جن لوگوں نے پرائیویٹ کشتیوں کے مالکان کو پیسے دیے وہ پہلے ہی گاؤں چھوڑ گئے۔ میں نے بھی اپنی بستی چھوڑنے کے لیے پرائیویٹ کشتی کا کرایہ دیا۔‘ 

انہوں نے بتایا کہ کھانے پینے کی اشیا کی شدید کمی ہے اور بے گھر خاندانوں کو دن میں صرف ایک وقت کھانا ملتا ہے۔

سڑک کنارے خیموں میں خاندان کھانے کے انتظار میں بیٹھے رہے۔ بچے رو رہے تھے اور عورتیں دعائیں کر رہی تھیں کہ پانی اتر جائے سب کسی معجزے کی آس لگائے ہوئے تھے۔

بدھ کو جلالپ ور پیروالا کے گرد پشتوں کو مضبوط کرنے کے لیے بلڈوزر اور بھاری مشینری استعمال کی گئی تاکہ تقریباً سات لاکھ کی آبادی والے اس شہر کو بچایا جا سکے۔ حکام کا کہنا ہے کہ اگر شہر میں پانی داخل ہوا تو لاکھوں جانیں خطرے میں پڑ سکتی ہیں۔

وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف نے جلال پور پیروالا کا دورہ کیا اور ان خاندانوں کے لیے معاوضے کا اعلان کیا جنہوں نے سیلاب میں اپنے عزیز، گھر یا مویشی کھو دیے۔ ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے بیان میں انہوں نے عزم ظاہر کیا کہ وہ ’ہر وعدہ پورا کریں گی۔‘

محکمہ موسمیات پاکستان کے مطابق راوی، چناب اور ستلج تینوں دریاؤں شدید طغیانی ہے اور پانی کی سطح خطرے کی حد تک پہنچ گئی ہے۔ جلال پور پیروالا چناب اور ستلج کے سنگم پر واقع ہے۔  دریاؤں کا پانی سندھ کی طرف بڑھ رہا ہے، جہاں ممکنہ سیلاب کے پیشِ نظر انخلا جاری ہے۔

صوبائی ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل عرفان علی کاٹھیا نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ جلال پور پیروالا شہر کو بچا لیا جائے گا۔

 انہوں نے کہا: ’مزید امدادی کشتیاں روانہ کر دی گئی ہیں۔‘ لیکن انہوں نے دیہاتیوں کو بار بار کیے جانے والے انتباہ کو نظرانداز کرنے کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کے ایک رپورٹر نے خاندانوں کو کیچڑ والے پانی میں گھٹنوں تک کھڑے دیکھا جو ریسکیو کشتیوں کا انتظار کر رہے تھے۔

سیلاب متاثرہ علاقوں سے نکالے گئے بہت سے افراد کے لیے مستقبل اب بھی غیر یقینی ہے۔

سیلاب متاثرہ شہری محمد ارشد نے آنکھوں میں آنسو لیے اور ریسکیو کشتی پر سوار ہوتے ہوئے کہا کہ ’میری بیوی اور بچے اب بھی ہمارے ڈوبے ہوئے گھر میں پھنسے ہوئے ہیں۔ جب سیلاب آیا تو میں گاؤں سے باہر تھا۔ تین دن میں کشتی کا انتظار کرتا رہا۔ آج پہلی بار موقع ملا ہے کہ میں انہیں دیکھ سکوں۔‘

35 سالہ صائمہ حسین جنہیں امدادی کشتی کے ذریعے گاؤں سے نکالا گیا، نے اپنی ہولناک یاد سنائی۔ ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے ریسکیو عملے کو ایک خاتون کی لاش پانی سے نکالتے دیکھا۔ ان کا بچہ اب بھی زندہ تھا اور ان کے سینے سے لگا ہوا تھا۔‘

اپنے بچے کو اٹھائے ہوئے خاتون نے کہا کہ ان کے پاس اسے کھلانے کے لیے کچھ نہیں۔

متاثرہ خاتون کے مطابق: ’دو دن سے بچے کو دودھ نہیں ملا۔ خدا نے ہمیں بچا لیا لیکن اب ہم بھوک سے لڑ رہے ہیں اور ہمیں مدد کی ضرورت ہے۔ مجھے کسی معجزے کی امید ہے۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ پانی اتر جائے۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان