راولپنڈی کا پہلا سکھ حکمران ملکھا سنگھ تھئے پوریہ کون تھا ؟

ملکھا سنگھ کی زندگی اگرچہ جنگ و جدل میں گزری، تاہم راولپنڈی انہی کے دور میں پھلنا پھولنا شروع ہوا۔

جنوری 2004 میں پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کے قریب راولپنڈی شہر کی ایک مرکزی سڑک کا منظر (اے ایف پی)

اڑھائی سو سال پہلے کی بات ہے جب سکھوں کی بھنگی مثل نے پوٹھوہار کو آخری گکھڑ سلطان مقرب خان سے چھین لیا تھا۔ تب راولپنڈی کوئی شہر تھا نہ ہی آج کی طرح کا قصبہ۔ موجودہ بھابڑا بازار کے ارد گرد علاقوں میں چند سو گھر اور ان کے ساتھ ہی چبوترے پر واقع ایک حویلی نما قلعہ، جو دراصل کوتوال کا گھر تھا۔

اگر اس شہر کی آبادی کا اندازہ لگایا جائے تو یہ کسی طور بھی ایک دو ہزار سے زیادہ نہیں ہو گی۔ راولپنڈی کو اس زمانے میں کوئی خاص حیثیت حاصل نہ تھی۔ زمینوں کے ریکارڈ اور مالیے کا کنٹرول تخت پڑی کے پاس ہے، جو اس وقت بحریہ فیز سیون اور ایٹ کا علاقہ ہے۔ علاقے کا عسکری کنٹرول پھروالہ قلعے سے ہوتا تھا جو آج دریائے سواں کے مشرقی کنارے پر کہوٹہ کی تحصیل کا حصہ ہے۔

راولپنڈی کے موجودہ شہر کو اپنا ہیڈ کوارٹر سکھوں نے اس وقت بنایا، جب بھنگی مثل نے یہ علاقہ گکھڑوں سے چھینا۔ انہوں نے بھنگی مثل کے مشہور سردار ملکھا سنگھ تھئے پوریہ کو یہاں کا حکمران تعینات کر دیا۔

بھنگی مثل کا پنجاب میں عروج اور پوٹھوہار پر قبضہ

راولپنڈی ڈویژن، جس میں اب اٹک، جہلم اور چکوال کے اضلاع آتے ہیں، کو پوٹھوہار کہا جاتا ہے، جو دراصل دریائے سندھ اور جہلم کا درمیانی نیم پہاڑی علاقہ ہے۔

1008 سے1765 تک یہاں پر گکھڑوں کی حکمرانی رہی۔ دلبیر سنگھ نے پنجابی یونیورسٹی پٹیالہ کی زیر نگرانی اپنے پی ایچ ڈی کے تحقیقی مقالے، بعنوان ’Rise, Growth and Fall of Bhangi Misal‘ میں ان واقعات کا بڑی تفصیل سے ذکر کیا ہے۔

1730 میں پنجاب میں بھنگی مثل ایک منظم طاقت کے طور پر ابھرنی شروع ہوئی تو اس نے امرتسر اور لاہور فتح کر لیا۔ اس زمانے میں  گکھڑ سردار مقرب خان، احمد شاہ ابدالی کا اتحادی تھا، جو ہندوستان پر ہونے والے حملوں میں افغانوں کو فوجی کمک فراہم کرتا تھا، اس لیے احمد شاہ ابدالی کے دور میں گکھڑوں کی عمل داری جہلم سے آگے گجرات تک پھیل گئی تھی۔ مقرب خان کی راجدہانی موجودہ پھروالہ قلعہ تھا۔

بھنگی مثل کے سرداروں گوجر سنگھ بھنگی اور چڑت سنگھ  سکھر چکیہ نے لاہور فتح کرنے کے بعد دسمبر 1765 میں مقرب خان کا گجرات میں گھیراؤ کر لیا۔ مقرب خان نے سکھ فوجوں کا دریا کے کنارے پر مقابلہ کیا لیکن پھر وہ پسپا ہو کر گجرات قلعے کے اندر محصور ہو گیا، جہاں وہ سکھوں کے لشکر کے آگے زیادہ دیر تک مزاحمت نہیں کر سکا۔

مقرب خان قلعہ سے نکلا اور ہاتھی پر بیٹھ کر دریا میں کود پڑا۔ سکھوں نے تعاقب کیا۔ ہاتھی تو دریا سے نکل آیا لیکن مقرب خان اس کی پیٹھ پر موجود نہیں تھا۔ سکھوں نے سمجھا کہ وہ دریا میں ڈوب گیا ہے۔ بعض روایات کے مطابق وہ اپنی عورتوں کے ساتھ ایک دوسرے رستے سے بچ کر نکل تو گیا لیکن ڈومیلی میں ایک اور گکھڑ سردار ہمت خان کے ہاتھوں مارا گیا۔

لیکن پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کی لاش کدھر گئی؟ پھروالہ قلعے کے باہر مقرب خان سے منسوب ایک مقبرہ آج بھی موجود ہے، جس میں کسی قبر کا کوئی نشان نہیں ملا۔ اسی مقبرے کے ساتھ سکھوں کی فوجی چوکیاں بھی ہیں، جہاں وفاقی محکمہ آثار قدیمہ بحالی اور مرمت کے کام جاری رکھے ہوئے ہے۔

راولپنڈی کو  اہمیت بھنگیوں کے دور میں ملی

راولپنڈی، اٹک اور ہزارہ کے علاقے جب سکھوں نے زیر کر لیے تو انہوں نے راولپنڈی کی جغرافیائی اہمیت کے  پیشِ نظر اپنی قیام گاہ بنا لیا کیونکہ یہ کابل سے لاہور اور کابل سے کشمیر کے راستوں کا سنگم تھا۔

گوجر سنگھ  شروع میں اپنے بیٹے صاحب سنگھ کے ساتھ 1767 کے موسم سرما تک یہاں سکونت پذیر رہا لیکن پھر انہوں نے یہ علاقہ بھنگی مثل کے ایک اور سردار ملکھا سنگھ تھئے پوریہ کے حوالے کر دیا۔ ملکھا سنگھ کی بیوی بھی بہادر گھوڑ سوار تھی اور کئی مہمات میں اپنے شوہر کے شانہ بشانہ شریک ہوتی تھیں۔ دونوں میاں بیوی نے مل کر اٹک سے روہتاس تک کے علاقے کا کنٹرول سنبھال لیا۔ ملکھا سنگھ نے سادھو سنگھ ، جو یہاں کا مقامی سکھ سردار تھا، کو نہ صرف سکھ فوج کو سازو سامان فراہم کرنے پر مامور کیا بلکہ ملکھا سنگھ کی عدم موجودگی میں وہ مالیہ وغیرہ اکٹھا کرنے کا بھی ذمہ دار تھا۔

اسی سادھو سنگھ کی اولاد میں سجھان سنگھ بہت مشہور ہوا، جس کی تاریخی حویلی بھابڑا بازار میں آخری سانسیں لے رہی ہے۔ گوجر سنگھ نے اگلے 12 سالوں میں پوٹھوہار کے نامور قبائل اعوان، گکھڑ، گھیبے، گولڑے، جنجوعے، جودڑے، رنیال اور طاہر خیلی سمیت  سب کو زیر کر لیا۔ راولپنڈی کے 669 موضع جات گکھڑوں کے پاس تھے، جنہیں گوجر سنگھ نے فتح کیا تو ان میں سے 192 دیہات ملکھا سنگھ کو دے دیے، جبکہ باقی کو خالصہ جاگیر قرار دے دیا۔

ملکھا سنگھ کی رنجیت سنگھ سے وابستگی

ملکھا سنگھ بھنگی مثل کے سب سے مؤثر سرداروں میں سے ایک تھا، جس کا تعلق قصور کے قریب ایک گاؤں کالیکے سے تھا۔ اس نے اپنے عروج کے دنوں میں لاہور میں ایک گاؤں تھئے پور بسایا اور تھئے پوریہ کا لقب اختیار کیا۔ لاہور، فیروز پور، گوجرانوالہ اور گجرات کے کئی دیہات پر قبضہ کرنے کی مہمات میں ملکھا سنگھ نے بھنگی مثل کا بھرپور ساتھ دیا۔ اس لیے جب گوجر سنگھ  بھنگی نے راولپنڈی پر قبضہ کیا تو اس نے ملکھا سنگھ کو یہاں کا گورنر تعینات کیا، جہاں سے سالانہ تین لاکھ روپوں کی آمدن ہوتی تھی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جب سکھ مثلوں کی آپس میں چپقلش شروع ہوئی تو ملکھا سنگھ نے اپنی ہمدردیاں بھنگی مثل سے سکھر چکیہ مثل کے سردار موہن سنگھ  سے وابستہ کر لیں۔ اسی مثل کا رنجیت سنگھ جب پنجاب کا حکمران بنا تو وہ ملکھا سنگھ  کو’باب‘ کے نام سے پکارتا تھا کیونکہ اس نے کئی معرکوں میں رنجیت سنگھ کا ساتھ دیا تھا۔

13 اکتوبر1798 کو کابل کا حکمران شاہ زمان جب دوبارہ ہندوستان پر حملہ آور ہوا تو اٹک پہنچ کر اس نے اپنا ہراول دستہ مدد خان کی سربراہی میں راولپنڈی بھیجا، جس نے سرائے کالا (موجودہ ٹیکسلا) کے مقام پر ملکھا سنگھ کی بیوی سے مقابلہ کیا، جو پسپائی اختیار کر کے راولپنڈی پہنچ گئیں۔

ملکھا سنگھ عین اس وقت رام سنگھ کے ساتھ مل کر سرائے کالا اور راولپنڈی کے ان قبائل کے خلاف حالتِ جنگ میں تھا، جو سکھوں کی عمل داری میں رکاوٹ بنے ہوئے تھے۔ ان قبائل نے نہ صرف سکھوں کو 50 کلومیٹر تک پسپا کر دیا تھا بلکہ ملکھا سنگھ اور رام سنگھ کو یرغمال بنا کر اٹک قلعے میں شاہ زمان کے سامنے پیش کر دیا، جس نے انہیں تین لاکھ روپوں کے عوض رہا کیا تو یہ لاہور میں رنجیت سنگھ کے پاس پہنچ گئے۔

ادھر شاہ زمان نے پیش قدمی کرتے ہوئے جنرل احمد خان سے روہتاس قلعہ چھین کر سکھوں پر چڑھائی کر دی۔ 21 نومبر 1798 کو رنجیت سنگھ جب شاہدرہ سے نکل کر امرتسر میں افغانوں کے مقابلے پر نکلا تو اس مہم میں اسے جن سرداروں کا ساتھ تھا ان میں ملکھا سنگھ بھی شامل تھا۔ لیکن شاہ زمان کو اچانک  کابل واپس جانا پڑ گیا۔

واپس جاتے ہوئے اس کی 12 توپیں دریائے جہلم میں طغیانی کی نذر ہو گئیں تو رنجیت سنگھ  اس کی مدد کو آیا، جس نے  تمام توپیں نکلوا کر شاہ زمان کو پیش کر دیں، جس نے جواباً چار توپیں رنجیت سنگھ کو تحفے میں دے دیں۔ یہیں سے شاہ زمان اور رنجیت سنگھ کی دشمنی دوستی میں بدل گئی۔

ملکھا سنگھ  کے پاس ہر وقت 2000 گھوڑوں کی فوج تیار رہتی تھی۔ 1804 میں جب وہ فوت ہوا تو اس کے بیٹے جیون سنگھ  کو رنجیت سنگھ نے راولپنڈی قلعے کے تھانیدار کا خطاب دیا۔ جیون سنگھ، رنجیت سنگھ کی کشمیر کی مہم 1814 میں بھی اس کے ساتھ تھا۔ جیون سنگھ جب 1815 میں فوت ہوا تو رنجیت سنگھ نے اس کی ساری جائیداد ضبط کر کے اس کے بیٹے آنند سنگھ کو لاہور دربار میں بلا لیا۔

آنند سنگھ کے تین بیٹے تھے، مگر ان کے حصے میں باپ کی تین لاکھ آمدنی کی زمین میں سے صرف 8000 سالانہ کا حصہ برقرار رکھا گیا۔ اسے فیروز پور میں 42000 سالانہ آمدن کی زمین الاٹ کی گئی۔ اس کے بھائی رام سنگھ کو ہزارہ میں اور تیسرے بھائی گرمکھ سنگھ کو سلطانی اور کالرہ میں جائیداد دی گئی۔ آنند سنگھ 1831 میں فوت ہوا تو اس کے بیٹے فتح سنگھ کی عمر صرف آٹھ سال تھی۔ مہاراجہ نے صرف 13 ہزار کی آمدن والی جاگیر ان کے پاس رہنے دی اور اس کے گھوڑوں کی تعداد کو بھی 20 تک محدود کر دیا۔

ملکھا سنگھ کی زندگی اگرچہ جنگ و جدل میں گزری، تاہم راولپنڈی انہی کے دور میں پھلنا پھولنا شروع ہوا۔

اٹک اور بھیرہ سے سیلاب سے متاثرہ ہزاروں لوگوں نے راولپنڈی میں سکونت اختیار کر لی، اس لیے جس شہر کی آبادی ہزار دو ہزار تھی وہ اگلے 50 سالوں میں انگریزوں کی آمد تک 15 ہزار آبادی کا ایک چھوٹا شہر بن گیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ