لاہور میں بعض صحافیوں کی جانب سے اپنے وی لاگز میں پولیس پر تنقید کے بعد جمعے کو سابق پولیس افسران نے اپنے ساتھی اہلکاروں کی حمایت میں مال روڈ پر ریلی نکالی اور چیئرنگ کراس پر احتجاجی مظاہرہ کیا۔
سابق پولیس ملازمین کی تنظیم الخدمت ویلفیئر ریٹائرڈ پولیس افسران پنجاب کے رہنما عزیز اللہ خان نے الزام عائد کیا کہ ’بعض صحافی وی لاگز میں پولیس کے حاضر سروس افسران پر ذاتی الزامات لگا کر محکمے کو بدنام کر رہے ہیں۔‘
انہوں نے الزام لگایا کہ ’ان صحافیوں کے غیر قانونی کاروبار ہیں جنہیں تحفظ دینے کے لیے وہ پولیس افسران کو بلیک میل کرتے ہیں۔
’پولیس افسران پر من گھڑت الزامات لگانے والوں کے خلاف نیشنل سائبر کرائم انویسٹیگیشن ایجنسی (سی سی آئی اے) میں پیکا ایکٹ کے تحت درخواست بھی دیں، لیکن بااثر ہونے کی وجہ سے صحافیوں کے خلاف کارروائی نہیں کی جا رہی، لہٰذا ہم انصاف کے لیے ریلی نکال کر احتجاج ریکارڈ کروا رہے ہیں۔‘
اس معاملے پر لاہور پولیس کا کوئی موقف نہیں آیا۔
لاہور پریس کلب کے جنرل سیکریٹری زاہد عابد نے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا ’صحافیوں کا کام حقائق عوام تک پہنچانا ہے۔ پولیس افسران کیا، معاشرے میں جس کے بارے میں بھی خبریں منظرعام پر لائی جائیں وہ صحافیوں کو بلیک میلر اور غلط ہونے کا الزام لگاتے ہیں۔‘
زاہد عابد کہتے ہیں ’پولیس نے این سی سی آئی میں درخواست جمع کروائی جس پر وی لاگ کرنے والے صحافیوں کو نوٹس جاری کرائے گئے۔
’ان نوٹسز کے خلاف لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا گیا جس پر عدالت نے پولیس افسران سے 15 اکتوبر کو جواب طلب کیا ہے۔‘
ان کے مطابق ’عدالت نے ان نوٹسز پر عمل درآمد روک دیا۔ ہماری کسی سے کوئی لڑائی نہیں نہ کسی سے دشمنی ہے۔
’اگر پولیس افسران یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ریلیاں نکلوا کر یا احتجاج کروا کے کچھ حاصل کرلیں گے تو یہ ان کا معاملہ ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’ہم نے پولیس کے خلاف نہ احتجاج کیا اور نہ ہی کریں گے۔ معاملہ عدالت میں ہے وہیں سے انصاف کی امید ہے۔ پولیس افسران خود ہی محکموں پر یقین نہیں رکھتے تو ان پر کون یقین کرے گا۔‘
جنرل سیکریٹری لاہور پریس کلب نے سوال اٹھایا کہ ’قانون نافذ کرنے والے ملازمین کیا سڑکوں پر مسئلہ کرنا چاہتے ہیں؟ حکومت کو چاہیے کہ ان کے اس رویے کا نوٹس لے اور معاملہ بڑھنے سے روکے۔
’ہر شعبے کو اپنی حدود میں رہ کر ہی کام کرنا ہوتا ہے، ہم اپنا کام کر رہے ہیں، انہیں چاہیے اپنا کام کریں۔‘
محکمہ پولیس اور صحافیوں کے درمیان پہلے بھی اس طرح کے کئی تنازعات ہوتے رہے ہیں، لیکن کبھی بھی ایسے حالات نہیں بنے کہ کوئی ایک فریق سڑکوں پر نکل آیا ہو۔
اس بار معاملے میں حکومت پنجاب بھی خاموش دکھائی دیتی ہے۔ صحافیوں کے خلاف مقدمات درج کرنا یا ان کے خلاف کارروائیاں تو معمول ہیں، لیکن پولیس کی جانب سے احتجاج پہلی بار دیکھنے میں آیا ہے۔