حالیہ ایشیا کپ کرکٹ سے زیادہ جنگ کا میدان بنا رہا

ایشیا کپ کے بعد مزید کسی آپس کی کرکٹ کا مستقبل تاریک ہوچکا ہے، جسے جنٹلمین گیم کہتے تھے وہ اب مزید شریفانہ کھیل نہیں رہا ہے۔ اب وہ جنگی میدان کا متبادل بن گیا ہے۔

انڈیا کے تلک ورما 28 ستمبر 2025 کو دبئی کے دبئی انٹرنیشنل سٹیڈیم میں ایشیا کپ 2025 ٹوئنٹی 20 بین الاقوامی کرکٹ فائنل میچ کے اختتام پر اپنی جیت کا جشن منا رہے ہیں (سجاد حسین / اے ایف پی)

ایشیا کپ کا 17واں ایڈیشن اتوار کو انڈیا کی جیت پر ختم ہوگیا لیکن جس قدر تنازعات سے بھرپور رہا ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔

تین ہفتوں تک ہر روز ایک نیا تنازعہ اور نئی خبر نے اس کی عزت و توقیر اتنی بڑھا دی ہے کہ لوگ اب کرکٹ پر نہیں بلکہ اس سے جڑے شکوک و شبہات پر بات کر رہے ہیں۔ ہاتھ ملانے سے لے کر ناخوشگوار اشاروں تک تنازعات نے گھیر رکھا ہے۔ آئی سی سی نے انڈین کپتان کے الفاظ اور پاکستانی کھلاڑیوں پر نازیبا اشاروں پر جرمانہ بھی کیا ہے لیکن ان تنازعات کی تپش مزید کئی سال محسوس ہوگی۔

اپنی شاندار روایات کے باوجود دونوں ممالک کے ذمہ داروں نے مسئلہ کے حل کے بجائے اسے ہوا دی اور ایک فریق نے تو اپنی خراب کارکردگی پر قومی عزت کا لبادہ ڈال کر نااہلیت کو اہلیت میں بدل دیا۔ وہ کھلاڑی جنھیں اپنی بری کارکردگی کا جواب دینا تھا وہ فرنٹ لائن کے کمانڈو بن گئے۔

جس قدر منظم انداز میں ایک چھوٹے سے مسئلہ کو ہوا دی گئی اس سے شک یقین میں بدل گیا کہ شکست کا ملبہ انڈیا پر ڈال دیا گیا ہے۔

پہلی دفعہ کرکٹ کی تاریخ میں ٹاس کے وقت دو اینکرز میدان میں آئے۔ فائنل میں ٹاس کے وقت انڈین کپتان سے بات کرنے روی شاستری اور پاکستان کپتان سے وقار یونس بات کرنے آئے۔

حالانکہ دونوں کو کسی غیر جانبدار پریزینٹر کی پیشکش کی گئی لیکن انڈیا نے انکار کردیا اور جواباً پاکستان نے بھی وہی توجیہ اپنائی۔ یہ محض ایک ضد نہیں بلکہ ایک کھیل کی روح کی تدفین ہے اور نفرتوں کے نئے دور کا آغاز ہے۔

ٹیموں کی کارکردگی کیسی رہی

پاکستان
پاکستان ٹیم کے لیے یہ ایشیا کپ اس لحاظ سے تاریخی ہے کہ ٹیم اپنی بدترین کارکردگی کے باوجود اٹک اٹک کر فائنل میں پہنچ گئی۔ اس بات سے قطع نظر کہ ٹیم کیسے پہنچی، سچ تو یہ ہے کہ اسے پہنچایا گیا۔

حریف ٹیمیں جو دوسرے میچوں میں مخالفین کے دانت کھٹے کر رہی تھیں پاکستان کے خلاف بھیگی بلی بن گئیں۔ سری لنکا اور بنگلہ دیش نے جس قسم کی کرکٹ کھیلی اس پر تو اگر قومی ٹیم کے بجائے لاڑکانہ کی ٹیم ہوتی تو وہ بھی جیت جاتی۔

پاکستان کی بیٹنگ پورے ٹورنامنٹ میں سراسر ناکام رہی۔ کسی بھی بلے باز نے جم کر بیٹنگ نہیں کی۔ صاحبزادہ فرحان نے سب سے زیادہ رنز بنائے لیکن سب سے کم اسٹرائیک ریٹ رہا۔ صائم ایوب کو مسلسل ناکام ہونے کے باوجود کھلانا ان پر رحم نہیں بلکہ اپنی نااہلی ہے کہ کوئی اور بلے باز دستیاب ہی نہیں ہے۔ زنگ آلود دھات کی مانند انھیں بار بار صاف کرکے بھیجا جاتا ہے اور وہ ناکام!

فائنل میں محض 30 رنز پر 9 وکٹ کھو دینا دراصل نااہلیت کی زبردست مثال ہے۔

بولنگ بھی ناکام ہی رہی!! انڈیا کے خلاف بے بس و بے کس بولنگ دوسری ٹیموں کے خلاف تو وکٹیں لیتی رہی لیکن جہاں ضرورت تھی وہاں بے دھار تلوار رہی، نہ کاٹ سکی نہ روک سکی۔

مجموعی طور پر فائنل کھیلنے کے باوجود اس ٹیم کو کسی بھی طرح چوتھے درجے سے زیادہ نہیں کہا جا سکتا۔

سری لنکا
سری لنکا کی ٹیم نے جس جوانمردی سے انڈیا کا مقابلہ کیا وہ قابلِ دید تھا۔ نسانکا نے ٹورنامنٹ کی واحد سنچری بنائی لیکن اہم میچوں میں جب ان کے مستقبل کا فیصلہ ہونا تھا وہ بری طرح ہار گئے۔ ان کی بولنگ بھی اس طرح کامیاب نہ ہوئی جیسے ماضی قریب میں نظر آتی ہے۔

بنگلہ دیش
بنگلہ دیش نے جب سری لنکا کو شکست دی تو ایسا لگتا تھا آسٹریلیا کی ٹیم کھیل رہی ہے لیکن وہی ٹیم جب پاکستان کے مدِ مقابل آئی تو ہوا کا جھونکا ثابت ہوئی۔ بیٹنگ نے خاصا مایوس کیا۔ ایک مختصر سے ہدف کے لیے ٹیم نے اناڑیوں کی طرح بیٹنگ کی اور فائنل تک پہنچنے کا سنہری موقع ضائع کردیا۔

افغانستان
افغانستان کو اس ٹورنامنٹ سے قبل ایشیا کی دوسری بہترین ٹیم کہا جا رہا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس ٹورنامنٹ کے بعد وہ وہاں پہنچ گئی جہاں ہانگ کانگ اور اومان کھڑے ہیں۔ بیٹنگ میں صرف دو کھلاڑیوں پر ضرورت سے زیادہ اعتماد انھیں لے ڈوبا کیونکہ جب وہ نہیں چلے تو بیٹنگ صفر ہوگئی۔ بولنگ میں راشد خان کی کارکردگی خراب رہی جبکہ مجیب تو پہلے ہی نقشِ کہن بن چکے ہیں۔

انڈیا
انڈیا کی ٹیم واضح طور پر مضبوط اور متوازن نظر آئی۔ اس کی اوپننگ شراکت داری نے ہر میچ میں مخالف ٹیم کو سر پٹکنے پر مجبور کیا جبکہ مڈل آرڈر نے اوپنرز کا مشن مکمل کیا۔ ابھیشک شرما نے موجودہ ٹی ٹوینٹی کرکٹ کو پھر سے گلکرسٹ اور ہیڈن کے دور میں پہنچا دیا۔ ان کی بے خوف جارحانہ بیٹنگ نے ہر میچ کا نقشہ پلٹ دیا۔ بولنگ میں کلدیپ یادو اور چکرورتی نے اگر بلے بازوں کو نچایا تو بمرا اور دوبے نے فاسٹ بولنگ کا دباؤ برقرار رکھا۔ یہی ان کی جیت کی بنیاد رہی۔ فائنل میں جس سکون اور اطمینان سے تلک ورما نے بیٹنگ کی اور اپنی ٹیم کو مشکل حالات سے جیت کے ساحل تک پہنچایا وہ قابلِ تعریف تھا۔ انڈیا نے پورے ٹورنامنٹ میں اپنی بالادستی قائم رکھی اور مہارت کا بھرپور مظاہرہ کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری نان ٹیسٹ پلئینگ ٹیمیں ہانگ کانگ، اومان اور متحدہ عرب امارات نے کوئی خاص کارکردگی تو نہیں دکھائی البتہ کچھ دیر کے لیے بڑی ٹیموں کو پریشان ضرور کیا۔

تماشائیوں کی عدم دلچسپی

اس ٹورنامنٹ میں سوائے انڈیا پاکستان میچ کے تمام میچوں میں سٹیڈیم خالی رہے اور تماشائیوں نے گراؤنڈ کا رخ نہیں کیا۔ بنگلہ دیش کے میچوں میں کسی حد تک تماشائی نظر آئے لیکن باقی میچوں میں عدم دلچسپی کا عنصر غالب رہا۔

ایشیا کپ کے انتظامات بھی بہت خراب رہے۔ منتظمین اس ٹورنامنٹ کی پبلسٹی کرنے میں ناکام رہے۔ شاید ان کا سارا زور ٹی وی رائٹس سے حاصل ہونے والی آمدنی پر تھا۔ مینجمنٹ کی زبوں حالی کا حال یہ تھا کہ میڈیا کمیٹی آخری دن تک ایکریڈیشن کا فیصلہ نہ کرسکی اور صحافی پریشان رہے۔ ایشین کرکٹ کونسل نے اس کی وجہ کرکٹ بورڈز کی سستی کو قرار دیا ہے۔

پچز اور امپائرنگ

اس ٹورنامنٹ میں امپائرنگ کا معیار بہت خراب رہا۔ امپائروں کے فیصلے متنازعہ رہے اور ان کی جلد بازی بھی نظر آئی۔ اکثر امپائروں کے فیصلے ڈی آر ایس میں تبدیل ہوگئے لیکن کچھ فیصلے ڈی آر ایس کے بعد بھی متنازعہ رہے۔ صرف ایشین امپائرز کی شرط نے امپائرنگ کا معیار بہت خراب کیا۔ اگر اتنے بڑے ایونٹ میں معروف امپائر ہوتے تو تنازعے جنم نہ لیتے۔ جیسے پاکستانی بلے باز فخر زمان کو ٹی وی امپائر نے غلط آؤٹ دیا۔

پچز بھی بہت خراب رہیں۔ ٹی ٹوینٹی کرکٹ میں تماشائی فلک شگاف چھکے دیکھنے آتے ہیں لیکن پچز پر غیر متوقع باؤنس نے بیٹنگ کو مشکل بنا دیا، جس سے بلے بازوں نے محتاط رویہ اختیار کیا۔ کرکٹ کا حسن اچھی ہموار پچز ہیں لیکن پچ بنانے والوں نے بلے بازی سے بھرپور انتقام لیا اور فائنل تک میں ایسی پچ تیار کی جس پر بیٹنگ آسان نہ تھی۔ مکمل بھرے ہوئے دبئی اسٹیڈیم میں تماشائی دل کھول کر شاباش بھی نہ دے سکے کیونکہ کل 12 چھکے لگے جو کسی بھی طرح فائنل کے شایانِ شان نہ تھے۔

کیا یہ صورتِ حال اب مستقل ہوجائے گی؟

انڈیا اور پاکستان کی چپقلش اور سیاسی چالبازیوں کو کرکٹ میں مدغم کرنے سے کرکٹ انتہائی حد تک سیاست آلود ہو چکی ہے۔ کھیل کی اصل روح ختم ہوچکی ہے اور ایک جاندار کرکٹ کے بجائے سیاسی الزامات اور اشارے بازی نے اس کی جگہ خود کو مضبوط کرلیا ہے۔ ٹیموں کی گراؤنڈ میں شکست و ریخت سے زیادہ اب ہاتھ ملانا یا نہ ملانا پر سوالات ہو رہے ہیں۔ ایشیا کپ کے بعد مزید کسی آپس کی کرکٹ کا مستقبل تاریک ہوچکا ہے، جسے جنٹلمین گیم کہتے تھے وہ اب مزید شریفانہ کھیل نہیں رہا ہے۔ اب وہ جنگی میدان کا متبادل بن گیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ