فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے مصور بھولا جاوید ان خوش قسمت فنکاروں میں شامل ہیں، جن کے فن کی عالمی سطح پر پذیرائی کا سلسلہ ان کی وفات کے کئی سال گزرنے کے بعد بھی جاری ہے۔
25 جنوری 1959 کو پیدا ہونے والے بھولا جاوید تقریباً نصف صدی تک مصوری کے پیشے سے وابستہ رہنے کے بعد 15 اپریل 2021 کو انتقال کر گئے تھے۔
انہوں نے اپنے فن پاروں میں پنجاب کی تاریخ، جدوجہد، روایت اور شناخت کو منفرد انداز میں پیش کیا ہے۔
حال ہی میں ایک بین الاقوامی آرٹ رینکنگ آرگنائزیشن ’آرٹ فیکٹس‘ نے مصنوعی ذہانت پر مبنی آرٹ ایڈوائزر کے ذریعے ترتیب دی گئی رینکنگ میں انہیں دنیا کے 10 لاکھ بہترین فنکاروں میں شامل کیا ہے۔
بھولا جاوید کے بیٹے تصور جاوید نے اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہیں بچپن سے ہی آرٹ سیکھنے کا شوق اور لگن تھی۔
’ہمارا گھر کرسچن ٹاؤن میں ہے، یہاں ساتھ ہی نشاط سینیما ہوتا تھا۔ وہ گھنٹوں ادھر جا کر پینٹنگز بنتے دیکھتے رہتے تھے۔ ان کے استاد محترم کام کرتے تھے اور وہ ان کے پیچھے کھڑے رہتے تھے اور پھر انہوں نے آرٹ کو ہی اپنا پیشہ بنا لیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وہ بتاتے ہیں کہ ان کے والد نے اپنی پیشہ ورانہ زندگی کا آغاز سینیما کے پوسٹرز پینٹ کرنے سے شروع کیا تھا۔
’وہ واٹر کلر میں کام کرتے تھے، آئل پینٹ میں ایک میڈیم ہوتا ہے نائف ورک اس میں کام کرتے تھے اور ایک الگ سے کام ہے جو کہ ورلڈ ریکارڈ ہے، وہ ہے سوائل پینٹنگ، جو ان کی اپنی ایجاد ہے۔ انہوں نے بابا گورو نانک کو بہت عقیدت سے پینٹ کیا، ننکانہ صاحب سے ان کی مٹی لی، اس مٹی سے ان کو پینٹ کیا۔ وہ آرٹ اس وقت امریکن میوزیم میں ڈسپلے ہے۔‘
تصور جاوید کے مطابق ان کے والد کی وفات کے بعد اب تک ان کے کام کی تین عالمی نمائشیں ہو چکی ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ ان کے والد کے کام کو نیشنل میوزیم آف نیچرل ہسٹری واشنگٹن سے شائع کی گئی کتاب ’سپلینڈرز آف پنجاب‘ میں بھی شامل کیا گیا ہے۔
اس کے علاوہ بھولا جاوید آرٹسٹ کی پینٹنگز کی فاؤلر میوزیم لاس اینجلس اور فینکس میوزیم ایری زونا میں بھی نمائش ہو چکی ہے۔
تصور جاوید بتاتے ہیں کہ انہیں یہ دیکھ کر بہت دلی خوشی ہوتی ہے کہ ان کے والد کی وفات کے بعد بھی لوگ ان کو اتنا پیار کرتے ہیں اور ان کے کام کو اتنی زیادہ پذیرائی مل رہی ہے۔
’یہ خدا کی ہمارے اوپر خصوصی رحمت ہے کہ ان کے جانے کے بعد بھی لوگ ان کے کام کو پیار کر رہے ہیں اور ان کے کام کو نمائش کے لیے پیش کر رہے ہیں۔‘
آرٹ فیکٹس کی طرف سے انہیں دنیا کے بہترین آرٹسٹوں میں شامل کرنے پر انہوں نے بتایا کہ ’اس میں لاکھوں آرٹسٹ ہوں گے، اس میں بھولا جاوید کا نام آنا بہت ہی فخر کی بات ہے۔ نہ صرف ہمارے لیے بلکہ پاکستان کے لیے بھی یہ فخر کی بات ہے۔‘
انہوں نے بتایا کہ اگرچہ ان کے والد کی وفات کے بعد ان کے فن کی عالمی سطح پر پذیرائی میں اضافہ ہوا ہے لیکن انہیں اپنی زندگی میں پاکستان کے لوگوں اور حکومت سے وہ سپورٹ اور پذیرائی نہیں ملی، جس کے وہ مستحق تھے۔
تصور نے خواہش کا اظہار کیا کہ ’پاکستانی حکومت انہیں صدارتی ایوارڈ سے نوازے، پوسٹ ہیومن کیٹیگری میں صدارتی ایوارڈ ان کو دیا جائے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں آرٹ اور آرٹسٹ کی وہ قدر نہیں ہے، جو باقی دنیا میں ہے اور اسی وجہ سے انہوں نے اپنے والد کے فن کو بطور پیشہ اختیار نہیں کیا۔
بقول تصور: ’پاکستان میں آرٹ کو اتنی زیادہ اہمیت نہیں دی جاتی، ہمارے یہاں اس طرح کے لوگ ہیں (جو کہتے ہیں کہ) یار وہ پینٹر ہے، لیکن انہیں یہ نہیں پتہ کہ جو آرٹسٹ ہوتا ہے وہ ایک خاص انسان ہوتا ہے، وہ خدا کی طرف سے ہوتا ہے، آرٹسٹ بنا نہیں جا سکتا، آرٹسٹ جو ہوتا ہے وہ خدا کی طرف سے ہوتا ہے۔‘