پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں مظاہرین سے مذاکرات کا پہلا دور بے نتیجہ، کشیدگی برقرار

 مذاکراتی کمیٹی کے رکن اور وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کے مطابق حکومت عوامی تحفظات اور احتجاج کو مذاکرات اور قانونی طریقوں سے حل کرنے کے لیے پرعزم ہے۔

 دو اکتوبر 2025 کو پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں اپنے مطالبات کے حق میں مظاہرے کرنے والی عوامی جوائنٹ ایکشن کمیٹی اور وزیراعظم پاکستان شہباز شریف کے تشکیل کردہ وفد کے درمیان مظفرآباد میں ہونے والے مذاکرات کے پہلے دور کا منظر (طارق فضل چوہدری ایکس اکاؤنٹ)

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں گذشتہ پانچ روز سے جاری کشیدگی کے بعد احتجاج کرنے والی عوامی جوائنٹ ایکشن کمیٹی اور وزیراعظم پاکستان شہباز شریف کے تشکیل کردہ وفد کے درمیان جمعرات کی شام مظفر آباد میں ہونے والے مذاکرات کا پہلا دور نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوا جبکہ علاقے میں کشیدگی بدستور برقرار ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

عوامی جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی قیادت میں ہونے والے ان احتجاجی مظاہروں میں سستی بجلی، صحت کی سہولتوں میں بہتری اور سیاست دانوں و بیوکریٹس کو دی جانے والی مراعات کے خاتمے سمیت سیاسی اصلاحات کے مطالبات کیے گئے ہیں۔

ان مظاہروں کے دوران پولیس اہلکاروں سمیت کم از کم نو افراد جان سے جا چکے ہیں جبکہ متعدد زخمی ہوئے۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے وزیراعظم چوہدری انوار الحق رواں ہفتے اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس کہہ چکے ہیں کہ مظاہرین کے 90 فیصد مطالبات پورے کیے جا چکے ہیں، جن میں بجلی کے نرخوں میں کمی، مقامی حکومتوں میں اصلاحات اور مظاہرین کے خلاف درج مقدمات کی واپسی شامل ہیں، لیکن انہوں نے کہا کہ دو مطالبات، جن میں وزرا کی تعداد کو کم کرنا اور کشمیری پناہ گزین کے لیے مخصوص نشستوں کو ختم کرنا شامل ہے، صرف قانون سازی کے ذریعے ہی حل کیے جا سکتے ہیں۔

حکومتی کمیٹی میں شامل وفاقی وزیر طارق فضل چوہدری نے ایکس پر ایک پیغام میں مذاکرات کے آغاز کی تصدیق کی۔

اگرچہ بات چیت کا پہلا دور نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوا، تاہم حکومتی مذاکراتی کمیٹی کے رکن اور وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے مظفرآباد میں میڈیا کے نمائندوں سے گفتگو میں کہا کہ حکومت عوامی تحفظات اور احتجاج کو مذاکرات اور قانونی طریقوں سے حل کرنے کے لیے پرعزم ہے۔

انہوں نے مظاہرین سے اپیل کی کہ وہ کوئی ایسا قدم نہ اٹھائیں جس سے پاکستان کے مخالفین فائدہ اٹھا سکیں۔

بقول احسن اقبال: ’خطے کی صورت حال کے پیش نظر بہت سے ایسے عناصر ہیں، جو پاکستان کے داخلی امن و استحکام میں خلل ڈال کر اپنا ایجنڈا اٹھانا چاہیں گے۔‘

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق گذشتہ پانچ روز سے جاری ان مظاہروں میں پولیس اہلکاروں سمیت کم از کم نو افراد کی جان چکی ہے اور کشمیر حکومت کے مطابق 170 سے زائد پولیس اہلکار اور 50 شہری زخمی ہو چکے ہیں، تاہم جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے منتظمین کا دعویٰ ہے کہ زخمی شہریوں کی تعداد 100 سے زیادہ ہے۔

احتجاج کے سبب خطے میں انٹرنیٹ اور موبائل سروسز گذشتہ اتوار سے معطل ہیں اور ہزاروں مظاہرین سڑکوں پر موجود ہیں۔ مظفرآباد میں جمعرات کو مارکیٹیں اور سکول بند رہے، جو اب بھی بدستور بند ہی ہیں۔

مئی 2024 میں اسی طرح کے مظاہروں کی ایک لہر نے اس خطے کو مفلوج کر دیا تھا۔ چھ روزہ ہڑتالوں اور پرتشدد جھڑپوں میں کم از کم چار افراد کی جان گئی تھی جس کے بعد وزیرِاعظم پاکستان شہباز شریف نے آٹے اور بجلی پر سبسڈی کے لیے 23 ارب روپے کے پیکج اور اشرافیہ کو دیے گئے مراعات کے جائزے کے لیے ایک عدالتی کمیشن کی منظوری دی تھی۔

جس کے بعد احتجاجی رہنماؤں نے اپنی تحریک کو معطل کر دیا تھا لیکن خبردار کیا تھا کہ اگر اعلان کردہ پیکج پر عملدرآمد نہ ہوا تو ایک بار پھر اپنے مطالبات کے لیے احتجاج کریں گے۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان