پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں جمعے کو وزیراعظم شہباز شریف کی ہدایت پر بھیجی گئی مذاکراتی ٹیم اور جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے نمائندوں کے درمیان مذاکرات کا دوسرا دور جاری ہے۔
گذشتہ پانچ روز سے جاری کشیدگی کے بعد احتجاج کرنے والی عوامی جوائنٹ ایکشن کمیٹی اور وزیراعظم پاکستان شہباز شریف کے تشکیل کردہ وفد کے درمیان جمعرات کی شام مظفر آباد میں ہونے والے مذاکرات کا پہلا دور نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوا تھا جبکہ علاقے میں کشیدگی بھی بدستور برقرار ہے۔
عوامی جوائنٹ ایکشن کمیٹی کی قیادت میں ہونے والے ان احتجاجی مظاہروں میں سستی بجلی، صحت کی سہولتوں میں بہتری اور سیاست دانوں و بیوکریٹس کو دی جانے والی مراعات کے خاتمے سمیت سیاسی اصلاحات کے مطالبات کیے گئے ہیں۔
ان مظاہروں میں پولیس اہلکاروں سمیت کم از کم نو افراد جان سے جا چکے ہیں جبکہ متعدد زخمی ہوئے۔
عوامی جوائنٹ ایکشن کمیٹی اور وزیراعظم پاکستان شہباز شریف کے تشکیل کردہ وفد کے درمیان مذاکرات کا پہلا دور بے نتیجہ ہونے کے بعد جمعے کو ایک اور دور کا آغاز کیا گیا ہے۔
وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور طارق فضل چوہدری نے ایکس پر ایک بیان میں بتایا کہ مظفرآباد میں شہباز شریف کی ہدایت پر بھیجی گئی مذاکراتی ٹیم اور جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے درمیان مذاکرات کا دوسرا دور جاری ہے۔
انہوں نے کہا ہے کہ ’ہم کشمیری عوام کے حقوق کے مکمل حامی ہیں۔ ان کے زیادہ تر مطالبات، جو عوامی مفاد میں ہیں، پہلے ہی منظور کیے جا چکے ہیں۔‘
حکومتی مذاکراتی کمیٹی رکن طارق فضل چوہدری کا کہنا ہے کہ ’چند مطالبات جن کے لیے آئینی ترامیم درکار ہیں، ان پر بات چیت جاری ہے۔
’ہم سمجھتے ہیں کہ تشدد کسی مسئلے کا حل نہیں، امید ہے ایکشن کمیٹی تمام مسائل کو پرامن مکالمے کے ذریعے حل کرے گی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حکومتی مذاکراتی ٹیم میں سینیٹر رانا ثنااللہ، احسن اقبال اور سردار یوسف، ڈاکٹر طارق فضل چوہدری، قمر زمان کائرہ اور انجینیئر امیر مقام شریک ہیں جبکہ سابق وزیراعظم راجہ پرویز اشرف، پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے سابق صدر سردار مسعود خان بھی مذاکرات کا حصہ ہیں۔
دوسری جانب شوکت نواز میر، راجہ امجد ایڈووکیٹ اور انجم زمان عوامی ایکشن کمیٹی کی نمائندگی کر رہے ہیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق گذشتہ پانچ روز سے جاری ان مظاہروں میں پولیس اہلکاروں سمیت کم از کم نو افراد کی جان چکی ہے اور کشمیر حکومت کے مطابق 170 سے زائد پولیس اہلکار اور 50 شہری زخمی ہو چکے ہیں، تاہم جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے منتظمین کا دعویٰ ہے کہ زخمی شہریوں کی تعداد 100 سے زیادہ ہے۔
احتجاج کے سبب خطے میں انٹرنیٹ اور موبائل سروسز گذشتہ اتوار سے معطل ہیں اور ہزاروں مظاہرین سڑکوں پر موجود ہیں۔ مظفرآباد میں جمعرات کو مارکیٹیں اور سکول بند رہے، جو اب بھی بدستور بند ہی ہیں۔