ترک صدر رجب طیب اردغان نے بدھ کو کہا کہ غزہ میں امن کے قیام کی پوری ذمہ داری حماس اور فلسطینیوں پر ڈالنا ’منصفانہ ہے اور نہ ہی حقیقت پسندانہ‘ ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اپنی جماعت کے قانون سازوں سے خطاب کرتے ہوئے رجب طیب اردوغان نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے منصوبے کے باوجود اسرائیل غزہ میں امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنا ہوا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مصر میں جاری جنگ بندی مذاکرات، جن میں ترک حکام بھی شریک ہیں، انتہائی اہم ہیں۔
ترک صدر نے کہا کہ ’امن ایک پر والا پرندہ نہیں ہے۔ امن کا پورا بوجھ حماس اور فلسطینیوں پر ڈالنا نہ منصفانہ، نہ درست اور نہ ہی حقیقت پسندانہ طرزِ عمل ہے۔‘
ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے بدھ کو ان کے دفتر کی طرف سے شیئر کردہ ایک ٹرانسکرپٹ میں بتایا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ترکی سے حماس کو غزہ جنگ کے خاتمے کے لیے ان کے منصوبے کو قبول کرنے کے لیے ’قائل‘ کرنے کو کہا تھا۔
رجب طیب اردوغان کا یہ تبصرہ ایسے وقت میں آیا ہے جب اسرائیل اور حماس کے مذاکرات کار مصر کے تفریحی قصبے شرم الشیخ میں بالواسطہ مذاکرات کے تیسرے دن ہو رہے ہیں، جن کا مقصد دو سال سے جاری غزہ جنگ کو روکنا ہے۔
اردوغان نے منگل کو دیر گئے آذربائیجان سے واپس آنے والے طیارے میں سوار ترک صحافیوں کو بتایا کہ ’دونوں امریکہ کے دورے کے دوران اور اپنی حالیہ فون کال میں، ہم نے مسٹر ٹرمپ کو بتایا کہ فلسطین کا حل کس طرح حاصل کیا جا سکتا ہے۔ انہوں نے خاص طور پر درخواست کی کہ ہم حماس سے ملیں اور انہیں قائل کریں۔‘
بالواسطہ مذاکرات گذشتہ ماہ ٹرمپ کے تجویز کردہ 20 نکاتی منصوبے پر مبنی ہیں، جس میں بدھ کو انٹیلی جنس چیف ابراہیم قالن کی قیادت میں ترک وفد بھی مذاکرات میں شامل ہوں گے۔
اردوغان نے مزید کہا کہ ’حماس نے ہمیں یہ بتاتے ہوئے جواب دیا کہ وہ امن اور مذاکرات کے لیے تیار ہے۔ دوسرے لفظوں میں اس نے کوئی مخالف مؤقف اختیار نہیں کیا۔ میں اسے بہت قیمتی قدم سمجھتا ہوں۔ حماس اسرائیل سے آگے ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے کہا کہ ’ہمارے ساتھی اس وقت شرم الشیخ میں ہیں ہم اس سارے عمل میں ہمیشہ حماس کے ساتھ رابطے میں رہے ہیں۔ ہم اب بھی رابطے میں ہیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’ہم یہ بتا رہے ہیں کہ سب سے زیادہ معقول راستہ کیا ہے اور مستقبل میں اعتماد کے ساتھ آگے بڑھنے کے لیے فلسطین کے لیے کیا کرنے کی ضرورت ہے۔‘
دوسری طرف حماس کے ایک سینیئر عہدیدار نے بدھ کو بتایا کہ مصر میں مذاکرات ’امید کے جذبے‘ کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔
طاہر النونو نے مصری تفریحی قصبے شرم الشیخ سے اے ایف پی کو بتایا، ’ثالث جنگ بندی کے نفاذ میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے بھرپور کوششیں کر رہے ہیں، اور تمام فریقوں میں امید کا جذبہ موجود ہے۔‘
نونو نے مزید کہا کہ فلسطینی گروپ نے قیدیوں کی ایک فہرست پیش کی ہے، جنہیں وہ جنگ بندی کے پہلے مرحلے میں ’متفقہ معیار اور تعداد کے مطابق‘ رہا کرنا چاہتا ہے۔