غرہ پر جاری اسرائیلی جارحیت کو دو سال مکمل ہو گئے ہیں جس میں نا صرف 67 ہزار سے زائد افراد کی جانیں گئیں بلکہ فلسطین کے لاکھوں افراد بالخصوص خواتین اور بچے متاثر ہیں۔
ان سات سو تیس دنوں میں جنگ بندی اور امن کی متعدد کوششیں امن قائم نہ کرسکیں البتہ اب امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت میں حماس اور اسرائیل کے درمیان مصر میں ہونے والے مذاکرات کسی حد تک امید کی کرن کے طور پر دیکھے جا رہے ہیں۔
دو سال قبل 7 اکتوبر 2023 کو حماس نے اسرائیل پر اچانک اور غیر معمولی حملہ کیا جس میں تقریباً 1200 افراد مارے گئے اور 251 دیگر کو قیدی بنا لیا گیا۔ ان حملوں کے ردعمل میں اسرائیل نے غزہ کی پٹی پر حملے شروع کر دیے جن میں ہزاروں اموات اور پورے کے پورے قصبوں اور شہروں کو ملیامیٹ کر دیا گیا۔
فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق غزہ کی وزارت صحت کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پیر کو جنگ میں فلسطینیوں کی ہلاکتوں کی تعداد 67,160 تک پہنچ گئی ہے۔
یہ عرصہ سب سے زیادہ فلسطینیوں کے لیے مشکل ثابت ہوا۔ بڑی تعداد میں لوگ غزہ پر اسرائیل کے تواتر سے حملوں سے فرار ہونے کے لیے متعدد بار نقل مکانی پر مجبور ہوئے ہیں۔
بہت سے فلسطینی جنوبی غزہ کا دشوار گزار اور مہنگا سفر کرنے سے قاصر ہیں۔
اقوام متحدہ کے سربراہ انتونیو گوتریش نے منگل کو حماس کے سات اکتوبر کے حملے کے دو سال مکمل ہونے پر ایک بیان میں غزہ میں قیدیوں کی ’فوری‘ اور ’غیر مشروط‘ رہائی کے لیے اپنے مطالبے کو دہرایا۔
گوتریش نے اسرائیل اور حماس پر مصر کے شہر شرم الشیخ میں جاری مذاکرات سے فائدہ اٹھانے کی ضرورت پر زور دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’دو سال کے صدمے کے بعد اب ہمیں امید کا انتخاب کرنا چاہیے۔ آئیے ہم تمام متاثرین کی یاد کا احترام کرتے ہوئے آگے بڑھنے کے واحد راستے کے لیے کام کریں: ایک منصفانہ اور دیرپا امن، جس میں اسرائیلی، فلسطینی اور خطے کے تمام لوگ سلامتی، وقار اور باہمی احترام کے ساتھ شانہ بشانہ رہتے ہیں۔‘
فلسطینی مذاکرات سے پرامید
اسرائیلی زمینی اور فضائی حملوں کی وجہ سے غزہ کے رہائشی بے پناہ مسائل سے گزرے اور تاحال گزر رہے ہیں۔
اب جب امریکی صر ڈونلڈ ٹرمپ کے امن منصوبے کے تحت مصر میں اسرائیل اور حماس کے درمیان مذاکرات کا عمل شروع ہو چکا ہے تو جنگ سے عاجز غزہ کے رہائشی اس سے امیدیں لگائے بیٹھیں ہیں۔
غزہ کے علاقے نصیرات میں پناہ گزینوں کے لیے قائم کیمپ میں مقیم ایک بے گھر فلسطینی 49 سالہ محمد نے روئٹرز سے بات کرتے ہوئے جنگ کی ہولناکیوں کا ذکر کچھ اس طرح سے کیا: ’آج 7 اکتوبر ہے۔ دو سال ہو گئے ہیں کہ ہم خوف، دہشت، نقل مکانی اور تباہی میں جی رہے ہیں۔ ہم تلخیوں اور مصائب میں ایک مشکل زندگی گزار رہے ہیں۔‘
تاہم وہ پھر بھی جنگ بندی اور امن کے خواہاں ہیں اور مذاکرات سے امید لگائے بیٹھیں ہیں۔
’ہم امید کر رہے ہیں کہ ان نئے مذاکرات سے جنگ بندی اور جنگ کے حتمی خاتمے تک پہنچ جائیں گے۔ ہم اس سفر سے تھک چکے ہیں، اور ہمارے لیے یہ دو بہت مشکل سال ہیں۔‘
اسی کیمپ میں مقیم 45 سالہ خاتون شیرین دوابہ بھی، جن کا خاندان غزہ کے اندر 12 مرتبہ نقل مکانی پر مجبور ہوا، مذاکرات کے عمل سے پرامید ہیں۔
’ہمیں امید ہے کہ اس ٹرمپ کے منصوبے کے ساتھ، جنگ بند ہو جائے گی، ہم اپنے گھروں کو لوٹیں گے، اپنے بچوں کے ساتھ گھر جائیں گے، پوری دنیا کے بچے جیسی مہذب زندگی گزاریں گے۔‘
انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے بچے دو سال سے سکول نہیں گئے اور ہم ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہو رہے ہیں۔‘
نصیرات کیمپ کے 39 سالہ فلسطینی رہائشی عبدالرحمان صالح دو سالہ جنگ کی اندوہناک تصویر کشی کرتے ہوئے گویا ہوئے کہ ’ہر روز بھوک، تباہی، فاقہ کشی، نقل مکانی، عدم استحکام اور موت ہے۔ ہم ہر روز، ہر سیکنڈ، ہر منٹ مر رہے ہیں۔ (یہاں) سردی، نقل مکانی اور پھٹے ہوئے خیموں کے علاوہ، ہوائی اور توپ خانے کے حملے ہو رہے ہیں۔‘
نتن یاہو کے بغیر یادگار کی تعمیر کا منصوبہ
اسرائیلی مرنے والوں کا سوگ منا رہے ہیں اور یرغمالیوں کے اہل خانہ نتن یاہو کے بغیر یادگار بنانے کا منصوبہ رکھتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مرکزی یادگاری تقریب کا انعقاد سوگوار خاندانوں کی طرف سے کیا جا رہا ہے، جو اگلے ہفتے عبرانی کیلنڈر کی سالگرہ کے موقع پر منعقد ہونے والی سرکاری یادگار سے الگ ہے۔
یہ تقسیم وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو کی قیادت پر گہری تقسیم کی عکاسی کرتی ہے، جسے بہت سے لوگ جنگ بندی کو محفوظ بنانے میں ناکامی کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں جو حماس کے زیر حراست باقی ماندہ قیدیوں کو رہا کر دے گی۔
امریکی امن منصوبے پر بات چیت منگل کو دوبارہ شروع ہوگی۔ اسرائیل اور حماس کے اہلکار منگل کو مصر کے ایک ریزورٹ میں امریکہ کے تیار کردہ امن منصوبے پر بالواسطہ بات چیت جاری کریں گے۔
یہ مذاکرات پیر کو شروع ہوئے اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے گذشتہ ہفتے پیش کیے گئے منصوبے کے بارے میں بہت سے سوالات کے درمیان سامنے آئے، جس میں عسکریت پسند گروپ کی تخفیف اسلحہ بھی شامل ہے، جو اسرائیل کا ایک اہم مطالبہ اور غزہ کی مستقبل کی حکمرانی ہے۔
ٹرمپ کے اسرائیل کو بمباری روکنے کا حکم دینے کے باوجود اسرائیلی فورسز نے غزہ پر فضائی حملے جاری رکھے ہوئے ہیں۔
مذاکرات کے بارے میں علم رکھنے والے ایک مصری اہلکار نے بتایا کہ فریقین نے پیر کو بحیرہ احمر کے تفریحی مقام شرم الشیخ میں مذاکرات کا دور سمیٹ لیا اور بات چیت منگل کی دوپہر کو دوبارہ شروع کرنا ہے۔
اس اہلکار نے، جس نے بات چیت کی حساسیت کی وجہ سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا، فریقین نے پہلے مرحلے کی بیشتر شرائط پر اتفاق کیا ہے، جن میں قیدیوں کی رہائی اور جنگ بندی کا قیام شامل ہے۔