اسرائیل اور حماس کے وفود نے پیر کو مصر میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ میں جنگ روکنے کے منصوبے کے تحت پہلے دن بالواسطہ مذاکرات کیے، جن میں متنازع مسائل، خصوصاً غزہ سے اسرائیلی فوجوں کا انخلا اور حماس کو غیر مسلح کرنے کی تجاویز شامل ہیں۔
مصر کے سیاحتی مقام شرم الشیخ میں جاری مذاکرات امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے غزہ کے لیے امن منصوبے کا حصہ ہیں، جس میں انہوں نے اسرائیلی حملوں کو روکنے، پٹی سے اسرائیلی فوجوں کے انخلا، قیدیوں کے تبادلے، فلسطینی تنظیم کو غیر مسلح کرنے اور فلسطینی علاقوں میں انسانی امداد پہنچائے جانے کی تجاویز شامل کی ہیں۔
اسرائیل اور حماس دونوں نے ٹرمپ کے منصوبے میں شامل ان اصولوں کی توثیق کی ہے جبکہ منصوبے کو عرب اور مغربی ممالک کی حمایت بھی حاصل ہے۔
غزہ پر اسرائیلی جارحیت کا آغاز سات اکتوبر 2023 کو ہوا تھا اور یوں اسرائیلی اور حماس کے مذاکرات کاروں کے درمیان مصر اور قطر کی ثالثی میں شرم الشیخ میں جاری بات چیت اسرائیلی حملوں کی دو سال مکمل ہونے پر امن کی کوششوں کا حصہ سمجھی جا سکتی ہیں۔
تاہم مذاکرات کے باوجود غزہ پر اسرائیلی حملوں میں کمی واقعہ نہیں ہوئی ہے۔
ٹرمپ نے ایک حتمی ڈیل کی طرف تیزی سے مذاکرات کرنے پر زور دیا ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ ٹرمپ، جنہوں نے خود کو غزہ میں امن کے حصول کے قابل واحد عالمی رہنما کے طور پر پیش کیا ہے اس جنگ کو ختم کرنے کی کوششوں میں اہم سیاسی سرمایہ لگائے ہوئے ہیں۔
دونوں فریق اہم تفصیلات کی وضاحت طلب کر رہے ہیں، بشمول وہ چیزیں جنہوں نے جنگ کو ختم کرنے کی گذشتہ کوششوں کو پٹڑی سے اتار دیا ہے اور کسی بھی فوری حل کو ناممکن بنا سکتے تھے۔
اے ایف پی کے مطابق مصری سرکاری انٹیلیجنس سے منسلک القہرہ نیوز نے کہا کہ مذاکرات کا پہلا دور ’مثبت ماحول کے درمیان‘ ختم ہوا اور منگل کو جاری رہے گا۔
مذاکرات کے قریب ایک فلسطینی اہلکار نے روئٹرز کو بتایا کہ پہلا اجلاس پیر کی شام دیر گئے ختم ہوا اور مزید مذاکرات منگل کو ہونے والے ہیں۔
عہدیدار نے بتایا کہ حماس نے یرغمالیوں کی رہائی اور غزہ سے اسرائیل کے انخلا کے پیمانے اور ٹائم لائن پر اپنے مؤقف کا خاکہ پیش کیا۔
عہدیدار نے کہا کہ فلسطینی تنظیم نے اس بارے میں بھی تشویش کا اظہار کیا کہ آیا اسرائیل مستقل جنگ بندی اور جامع انخلا کا عہد کرے گا۔
القہرہ نیوز نے پہلے کہا تھا کہ وفود ’نظربندوں اور قیدیوں کی رہائی کے لیے زمینی حالات کی تیاری پر تبادلہ خیال کر رہے ہیں۔‘
اس نے کہا کہ ’مصری اور قطری ثالث اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینیوں کے بدلے غزہ میں اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے لیے ایک طریقہ کار قائم کرنے کے لیے دونوں فریقوں کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔‘
ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں صحافیوں کو بتایا کہ انہیں ’کافی یقین‘ ہے کہ امن معاہدہ ممکن ہے۔
’میرے خیال میں حماس ان چیزوں پر راضی ہو رہی ہے جو بہت اہم ہیں... مجھے لگتا ہے کہ ہم ایک معاہدہ کرنے جا رہے ہیں۔‘
ایک مصری سیکورٹی ذرائع نے اے ایف پی کو بتایا کہ حماس کے مرکزی مذاکرات کار خلیل الحیا، جو گذشتہ ماہ دوحہ میں فلسطینی اسلامی تحریک کے رہنماؤں پر اسرائیلی حملے میں بچ گئے تھے، نے مذاکرات سے قبل مصری انٹیلیجنس حکام کے ساتھ ایک میٹنگ کی۔
حماس کی قیادت کے ایک قریبی فلسطینی ذریعے نے کہا کہ مذاکرات کا یہ دور، غزہ پر سات اکتوبر 2023 کو شروع ہونے والے حملوں کی دوسری برسی کے موقع پر شروع کیا گیا، ’کئی دن تک جاری رہ سکتا ہے۔‘
صدر ٹرمپ، جن کے ایلچی سٹیو وٹ کوف اور داماد جیرڈ کشنر مصر میں متوقع ہیں نے مذاکرات کاروں پر زور دیا ہے کہ وہ غزہ میں جنگ کے خاتمے کے لیے ’تیزی سے آگے بڑھیں‘، جہاں پیر کو اسرائیلی حملے جاری تھے۔
غزہ کی سول ڈیفنس ایجنسی کے ترجمان محمود بسال کے مطابق تازہ ترین اسرائیلی فضائی حملوں میں کم از کم سات فلسطینی مارے گئے۔
اے ایف پی کی فوٹیج میں غزہ کی پٹی میں دھماکوں کو دکھایا گیا، جس میں افق پر دھویں کے بادل اٹھ رہے تھے، یہاں تک کہ امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو کے کہنے کے بعد کہ اسرائیل کو علاقے پر بمباری بند کرنا چاہیے۔
’کئی دن درکار ہیں‘
حماس اور اسرائیل دونوں نے ٹرمپ کی تجویز کا مثبت جواب دیا ہے لیکن تفصیلات پر کسی معاہدے تک پہنچنا ایک بہت بڑا کام ہے۔
اس منصوبے میں حماس کے تخفیف اسلحہ کی تجویز رکھی گئی ہے جسے فلسطینی گروپ کی جانب سے قبول کیے جانے کا امکان نہیں ہے۔
اس میں غزہ سے اسرائیلی افواج کے بتدریج انخلا کا بھی بندوبست کیا گیا ہے لیکن اسرائیل کے وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو نے قیدیوں کی رہائی کو یقینی بناتے ہوئے علاقے کے اندر ’گہرائی تک‘ فوجیوں کو دوبارہ تعینات کرنے کا عزم دہرایا ہے۔
فلسطینی ذرائع کے مطابق، ابتدائی قیدیوں کے تبادلے میں ’کئی دن درکار ہوں گے، جو کہ اسرائیلی انخلا، بمباری کے خاتمے اور ہر قسم کی فضائی کارروائیوں کی معطلی سے متعلق زمینی حالات پر منحصر ہے۔‘
حماس کے ایک اہلکار نے کہا کہ مذاکرات ’عارضی جنگ بندی کی تاریخ کا تعین‘ کرنے پر غور کریں گے اور ساتھ ہی اس منصوبے کے پہلے مرحلے کے لیے حالات پیدا کریں گے، جس میں غزہ میں قید 47 قیدیوں کو سینکڑوں فلسطینیوں کے بدلے میں رہا کیا جائے گا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی نے کہا کہ وہ قیدیوں اور زیر حراست افراد کی واپسی میں مدد کرنے اور غزہ میں جہاں اقوام متحدہ نے قحط کا اعلان کیا ہے، امداد کی رسائی کو آسان بنانے کے لیے تیار ہے۔
49 سالہ محمد ابو سلطان، جو غزہ شہر سے 20 افراد کے کنبے کے ساتھ وسطی غزہ کے نصیرات کیمپ میں مقیم ہیں نے کہا، ’جنگ نے میری زندگی بھر کی ہر چیز کو تباہ کر دیا ہے۔‘
’ہم دو سال سے موت سے بھاگ رہے ہیں۔‘
جنگ بندی
حماس کے قریبی ایک فلسطینی ذریعے نے کہا کہ تنظیم اسرائیل کی جانب سے بمباری روکنے اور غزہ شہر سے فوجوں کے انخلا کی صورت میں اپنی فوجی کارروائیاں روک دے گا۔
اسرائیلی فوج کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ایال ضمیر نے تاہم خبردار کیا کہ اگر مذاکرات ناکام ہوئے تو فوج غزہ میں ’لڑائی دوبارہ شروع کریں گے۔‘
حماس 7 اکتوبر 2023 کو 251 اسرائیلیوں کو قیدی بنایا تھا، جن میں سے 47 اب بھی غزہ میں موجود ہیں۔ ان میں سے، اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ 25 جان سے جا چکے ہیں۔
ٹرمپ کے منصوبے کے مطابق اسرائیلی قیدیوں کے بدلے میں اسرائیل سے عمر قید پانے والے 250 فلسطینیوں اور جنگ کے دوران غزہ سے 1700 سے زیادہ پکڑے جانے والے فلسطینیوں کو رہا کیے جانے کی توقع ہے۔
حماس نے اصرار کیا ہے کہ اسے علاقے کے مستقبل کے بارے میں کچھ بتایا جانا چاہیے، جبکہ ٹرمپ کا روڈ میپ یہ بتاتا ہے کہ اس کا اور دیگر دھڑوں کا ’غزہ کی حکمرانی میں کوئی کردار نہیں ہے۔‘
اس تجویز کے تحت، علاقے کا انتظام ایک ٹیکنو کریٹک ادارہ کرے گا جس کی نگرانی خود ٹرمپ کی سربراہی میں ایک عبوری اتھارٹی کرے گی۔
المواسی کے علاقے سے احمد بربخ نے کہا کہ ہمیں امید ہے کہ ٹرمپ نتن یاہو پر دباؤ ڈالیں گے اور انہیں جنگ روکنے پر مجبور کریں گے۔
’ہم چاہتے ہیں کہ قیدیوں کے تبادلے کا معاہدہ جلد مکمل ہو تاکہ اسرائیل کے پاس جنگ جاری رکھنے کا کوئی بہانہ نہ رہے۔‘
اے ایف پی کے اعداد و شمار کے مطابق حماس کے اسرائیل پر7 اکتوبر 2023 کے حملے میں 1,219 افراد مارے گئے تھے۔
حماس کے زیر انتظام علاقے میں وزارت صحت کے اعداد و شمار کے مطابق اسرائیل کی جاری جارحیت میں میں کم از کم 67,160 فلسطینیوں کی اموات ہوئیں، جسے اقوام متحدہ قابل اعتماد سمجھتا ہے۔