10 نومبر، 2025 کو نئی دہلی کے لال قلعے کے قریب ہونے والے کار دھماکے بعد سکیورٹی ادارے اور ایجنسیاں سرگرمی سے واقعے کی تفتیش کر رہی ہیں اور متعدد ریاستوں میں آپریشن کے دوران متعدد افراد کو حراست میں لے لیا گیا۔
انڈین میڈیا کے مطابق بدھ کو سکیورٹی فورسز نے نئی دہلی میں تربیت یافتہ کتوں کے سکواڈ کے ساتھ لال قلعے کے قریب ان مقامات کی جانچ پڑتال کی جہاں دھماکے میں کم از کم آٹھ افراد مارے گئے اور کئی زخمی ہوئے تھے۔
انڈین خبر ایجنسی اے این آئی کے مطابق اب تک سات افراد گرفتار ہوئے ہیں جن کا تعلق ہریانہ کے شہر فرید آباد سے ہے، جہاں کے میڈیکل کالج اور ہسپتال میں 52 افراد سے پوچھ گچھ کی گئی۔
انڈین میڈیا کے دعویٰ ہے کہ مختلف ریاستوں کی سکیورٹی فورسز نے کارروائیوں کے دوران ہزاروں کلوگرام دھماکہ خیز مواد، ڈیٹونیٹرز، ٹائمرز اور دیگر بم سازی کا سامان برآمد کیا ہے۔
ابھی تک انڈیا نے اسے باضابطہ طور پر دہشت گردی کا واقعہ قرار نہیں دیا البتہ منگل کو وزیرِ اعظم نریندر مودی نے کہا تھا کہ دہلی میں ہونے والے دھماکے کے مجرموں کو نہیں چھوڑا جائے گا اور جو بھی اس میں ملوث ہے اسے انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے گا۔
پولیس نے عوام سے درخواست کی ہے کہ وہ کسی مشتبہ فرد کی اطلاع پولیس کو دیں۔ دہلی میں داخلے کے مختلف مقامات پر پولیس اور پیرا ملٹری فورس کے اہلکار تعینات ہیں اور سکیورٹی ہائی الرٹ پر ہے۔ گاڑیوں کی چیکنگ جاری ہے۔
نیوز ایجنسی اے این آئی کے مطابق ہریانہ کے فرید آباد میں متعدد افراد کو گرفتار کیا گیا تھا، جس کے بعد جموں و کشمیر میں بھی دھماکے سے چند روز قبل کچھ افراد کو حراست میں لیا گیا۔
پولیس کے مطابق لال قلعے کے قریب دھماکے میں ملوث کار کے مبینہ ڈرائیور ڈاکٹر عمر اسی گینگ کے رکن ہیں۔ بادی النظر میں گینگ کے بے نقاب ہونے پر انہوں نے مبینہ طور پر جلد بازی سے کام لیا۔
سکیورٹی فورسز کے مطابق ڈاکٹر عمر کی ملاقات الفلاح میڈیکل کالج میں رہائش کے دوران ڈاکٹر مزمل احمد گنائی اور ڈاکٹر عدیل راٹھر سے ہوئی تھی۔
مزمل کو سات مبینہ ارکان میں سے پہلے گرفتار کیا گیا، جب کہ پولیس کی پوچھ گچھ کے بعد ڈاکٹر عدیل بھی جلد پکڑے گئے۔
اے این آئی کے مطابق گینگ کے تیسرے رکن کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ ان کا نام عرفان احمد ہے، جو مبینہ طور پر جموں و کشمیر کے علاقے شوپیاں کی ایک مسجد کے امام ہیں۔
ان پر الزام ہے کہ وہ دوسروں کی ’انتہا پسندی‘ کی طرف ذہن سازی کرتے تھے۔
چوتھے رکن عارف نثار ڈار، نوگام (جموں و کشمیر) کا رہائشی بتائے جاتے ہیں، ان کے امام اور ڈاکٹر مزمل سے روابط تھے۔
اخبار دی ہندو نے کہا جموں و کشمیر پولیس نے ایک 40 سالہ لیڈی ڈاکٹر شاہین سعید کو11 نومبر کو اس واقعے سے تعلق کے شبے میں گرفتار کیا ہے۔
ڈاکٹر شاہین لکھنو میں رہتی تھیں۔ ان کے گھر سے فون، ہارڈ ڈسکیں اور دستاویزات ملی ہیں۔
انڈیا ٹوڈے نے ان کا تعلق عسکریت پسند تنظیم جماعت المومنین سے بتایا ہے۔
ہنڈائی آئی 20 کار
اخبار انڈیا ٹوڈے نے لکھا تفتیش کاروں کے مطابق اس واردات کے مرکزی ملزم ڈاکٹر عمر نبی ہیں جنہوں نے صرف 11 دن قبل دھماکے میں استعمال ہونے والی سفید کار ہنڈائی آئی 20 خریدی تھی۔
اخبار نے ذرائع کے حوالے سے لکھا ڈاکٹر عمر نے 29 اکتوبر کو گاڑی خریدی اور اسے فرید آباد میں الفلاح میڈیکل یونیورسٹی میں کھڑے رکھا۔
اخبار مزید رپورٹ کرتا ہے کہ یہ گاڑی 10 نومبر تک وہیں کھڑی رہی، پھر 10 نومبر کو ڈاکٹر عمر بظاہر پریشانی کی حالت میں اسے چلاتے ہوئے دہلی لے آئے۔
انڈیا ٹوڈے نے تفتیش کاروں کے حوالے سے لکھا کہ اس واقعے میں 10 سے 12 لوگوں کا گینگ ملوث ہے جس میں پانچ سے چھ ڈاکٹر شامل ہیں، جنہوں نے اپنے عہدے کا فائدہ اٹھا کر بم بنانے کے لیے خام مواد حاصل کیا۔
ڈاکٹر عمر کی رہائش گاہ پر چھاپے سے2900 کلوگرام امونیم نائٹریٹ برآمد ہوا، جو دھماکہ خیز مواد بنانے میں استعمال ہو سکتا ہے۔
ڈاکٹر عمر النبی کون ہیں؟
اخبار ہندوستان ٹائمز نے لکھا کہ ڈاکٹر عمر النبی کا تعلق جموں و کشمیر سے تھا اور وہ خاموش الطبع انسان تھے۔ انہیں لال قلعے دھماکے کا مرکزی ملزم تصور کیا جا رہا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایجنسیوں نے چند دن پہلے چھاپہ مار کر ان کے گھر سے امونیم نائٹریٹ پکڑی تھی۔
ڈاکٹر عمر بظاہر واقعے سے پہلے روپوش ہو گئے تھے، انہوں نے اس کے بعد سے اب تک پانچ موبائل بدلے اور وہ 30 اکتوبر کے بعد سے کام پر نہیں جا رہے تھے۔
ہندوستان ٹائمز نے لکھا جب فرید آباد میں چھاپہ پڑا تو ڈاکٹر عمر بوکھلا گئے اور وہ ہنڈائی گاڑی لے کر دہلی چلے گئے جس میں امونیم نائٹریٹ کا ایندھن تھا۔
ایک پولیس افسر نے نام ظاہر کیے بغیر ہندوستان ٹائمز کو بتایا کہ ڈاکٹر عمر نے جلد بازی میں دھماکہ کر ڈالا کیوں کہ پولیس اور تفتیشی ادارے ان کی کھوج میں تھے۔
افسر نے مزید بتایا کہ بم خام حالت میں استعمال کیا گیا اور اسے جلد بازی اور افراتفری کی حالت میں چلایا گیا۔
’دھماکہ بوکھلاہٹ اور مایوسی کی حالت میں کیا گیا کیوں کہ سکیورٹی ایجنسیاں انہیں پکڑنے کے لیے چھاپے مار رہی تھیں۔ بم ناپختہ تھا اور پوری طرح تیار نہیں تھا، اس لیے اس کا اتنا اثر نہیں ہوا۔‘
ہندوستان ٹائمز کے مطابق پولیس نے معلوم کیا ہے دھماکے میں استعمال ہونے والی سفید ہنڈائی گاڑی کو عمر چلا رہے تھے اور اس کے اندر وہی بارودی مواد استعمال ہوا جو اس سے پہلے فرید آباد میں پکڑا گیا تھا۔