سزا یافتہ عہدے داروں کی بحالی سے پی ٹی آئی پنجاب میں متحرک ہو پائے گی؟

پی ٹی آئی وسطی پنجاب کے صدر احمد چھٹہ اور جنرل سیکریٹری بلال اعجاز کو نو مئی واقعات میں سزا سنائی گئی اور وہ روپوش ہیں۔

نو مئی، 2023 کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے باہر سکیورٹی اہلکار کھڑے ہیں (اے ایف پی)

پاکستان کے سب سے زیادہ آبادی والے صوبہ پنجاب میں تحریک انصاف نے اپنے وسطی پنجاب کے صدر احمد چھٹہ اور جنرل سیکریٹری بلال اعجاز کو بحال کردیا ہے۔

ان دونوں عہدے داروں کو نومئی واقعات میں عدالت سے 10، 10 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی لیکن وہ روپوش ہیں۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ملک کے سیاسی منظر نامے پر اہم کردار ادا کرنے والے صوبے میں مرکزی عہدے داروں کے پس پردہ رہ کر کام کرنے سے سابق حکمران جماعت دوبارہ کس طرح متحرک ہوسکے گی؟

تحریک انصاف کو پنجاب میں نو مئی واقعات کے بعد سے کئی مشکلات کا سامنا ہے۔ بانی چیئرمین کی کال پر دو بار ملک بھر میں احتجاج کے دوران پنجاب میں جلسے جلوس یا ریلیاں نہیں نکالنے دی گئیں۔ متعدد بار مینار پاکستان پر جلسے کی جازت نہیں ملی۔ 

گذشتہ برسوں میں صرف ایک جلسہ ہو سکا جس کی اجازت لاہور شہر سے باہر کاہنہ کی مویشی منڈی میں دی گئی تھی۔ صوبے کے اہم رہنما بھی پابند سلاسل ہیں۔ نومئی کے واقعات میں کردار کے علاوہ بھی ان پر کئی درجنوں مقدمات درج ہیں جن میں بڑی تعداد کارکن یا گرفتار ہیں یا مفرور ہوکر خیبر پختونخوا میں مقیم ہیں۔

پی ٹی آئی کے مرکزی سیکریٹری جنرل سلمان اکرم راجہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’پنجاب میں عمران خان کی ہدایت پرتنظیمی عہدے داروں، صدر وسطی پنجاب احمد چٹھہ اور جنرل سیکریٹری بلال اعجاز کو بحال کر دیا گیا ہےاب وہ اپنی صلاحیتوں کے مطابق پارٹی کے لیے کام کریں گے۔‘

تجزیہ کار سلمان غنی کے بقول: ’تحریک انصاف کی پہلے درجے کی قیادت پر مقدمات ہیں اور کئی جیل میں بند ہیں۔ دوسرے درجے کی قیادت بھی مشکلات سے دوچار ہے۔ لہٰذا عمران خان نے اپنے وفا دار اور قابل اعتماد ساتھیوں پر انحصار کر کے اچھا سیاسی فیصلہ کیا ہے۔‘

عہدے داروں کی معطلی اور بحالی

سلمان اکرم راجہ کہتے ہیں کہ عمران خان کی قائم کردہ پی ٹی آئی پنجاب نظر ثانی کمیٹی نے متفقہ طور پر احمد چٹھہ کو وسطی پنجاب کے صدر کے عہدے پر بحال کرنے کا فیصلہ کیا۔

ایک سال پہلے احمد چٹھہ کو صدر وسطی پنجاب اور بلال اعجاز کو جنرل سیکرٹری مقرر کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا تھا۔ لیکن چیف آرگنائزر پنجاب عالیہ حمزہ اور سلمان اکرم راجہ کے درمیان اس معاملہ پر اتفاق نہ ہونے کے باعث کئی ماہ سے یہ عہدے دار غیر فعال رہے۔ یہ معاملہ عمران خان تک پہنچنے کے بعد اب ان کی بحالی کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

احمد چٹھہ جو سینیئر سیاست دان حامد ناصر چٹھہ کے صاحبزادے ہیں اور آٹھ فروری کے عام انتخابات میں قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 66 وزیر آباد سے پی ٹی آئی کی حمایت سے کامیاب ہوئے تھے۔

وہ نو مئی کے مقدمے میں 10 سال سزا کے باعث نااہل قرار پائے۔ اس حلقے سے چند دن پہلے ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ ن کے امیدوار بلال فاروق تارڈ بلا مقابلہ منتخب ہوگئے۔ کیوں کہ تحریک انصاف نے ضمنی انتخاب کا بائیکاٹ کر دیا تھا۔

بلال اعجاز کو بھی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے نومئی کے مقدمے میں 10 سال قید کی سزا سنا رکھی ہے۔ یہ دونوں عہدےدار بحالی کے باوجود منظر عام پر نہیں آسکیں گے کیوں کہ عدالت نے ان کو مفرور قرار دے کر گرفتاری کا حکم دے رکھا ہے۔

پی ٹی آئی کے پنجاب میں ڈپٹی چیف وہپ امتیاز شیخ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’پارٹی کے تمام اہم رہنماوں کے خلاف نومئی واقعات اور دیگر مقدمات درج ہیں۔ اس لیے پارٹی کے وفادار ساتھیوں کو عہدوں سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ ہم تو سبھی دباؤ اور انتقام کے باوجود کام کر رہے ہیں۔ ہمیں سیاسی طور پر کوئی ایکٹویٹی کرنے کی اجازت نہیں ہے۔

’پولیس ابھی تک ہمارے کارکنوں کو ہراساں کر رہی ہے۔ مگر ہم ضمنی الیکشن جہاں نومئی میں ہمارے اراکین کو نااہل نہیں کیا گیا وہاں بھر پور کوشش کر رہے ہیں۔ بلدیاتی انتخابات ہوں یا احتجاج کی کال مشکلات کے باوجود قیادت کی کال پر لبیک کہتے رہیں گے۔‘

دوسری جانب پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمی بخاری متعدد بار میڈیا سے گفتگو میں کہہ چکی ہیں کہ ’پر امن سیاست سے کسی کو نہیں روکا جاتا لیکن قانون ہاتھ میں لینے توڑ پھوڑ کرنے یا عدالتوں سے سزا یافتہ مجرموں کو قانون کا سامنا کرنے پڑے گا۔ ہم عوام کا تحفظ یقینی بنانے کے لیے اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پنجاب میں پی ٹی آئی متحرک ہوپائے گی؟

احمد چٹھہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’ہمیں عمران خان کے حکم پر بحال کیا گیا ہے۔ ہمیں جھوٹے کیسوں میں سزائیں دے کر نااہل کیا گیا اور سیٹیں چھینی جارہی ہیں۔ لیکن ہم اپنے لیڈر کی ہر کال پر حاضر ہیں چاہے بلدیاتی الیکشن ہو یا کوئی بھی انتخاب پارٹی کارکنوں کے ساتھ رابطے میں ہیں اور جس حد تک ہوسکتا ہے متحرک ہیں۔

’ہمیں دوسرے صوبوں کی نسبت سب سے زیادہ انتقامی کارروائیوں کا سامنا پنجاب میں ہے۔ اتنی سختی سندھ یا بلوچستان میں بھی نہیں جتنی یہاں کی جارہی ہے۔ لیکن اس سے فرق نہیں پڑتا عوام ہمارے ساتھ ہیں۔

’چاہے ہمیں دوسری جماعتوں کی طرح سیاست کرنے کی اجازت نہیں لیکن پھر بھی آٹھ فروری کو عوام نے عمران خان کو سب سے زیادہ ووٹ دیے۔ اب بھی پابندیوں ے باوجود ہر انتخاب میں کامیاب ہوں گے۔‘

سلمان غنی کے بقول: ’سیاسی جماعتوں کو گرفتاریوں یا سزاؤں سے ختم نہیں کیا جاسکتا۔ اگرچہ نومئی واقعات کے بعد پی ٹی آئی قیادت اور کارکن مشکل میں ہیں لیکن اس سے ان کا ہمدردی کا ووٹ بڑھ رہا ہے۔ 

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’لاہور کے ضمنی الیکشن میں بھی میاں اظہر کی خالی نشست این اے 129سے حماد اظہر مقدمات کی وجہ سے الیکشن نہیں لڑ سکے تو چوہدری ارسلان مسلم لیگ ن کے امیدوار حافظ نعمان کے مقابلے میں ہیں۔ قیادت متحرک نہ ہونے کے باوجود یہاں مقابلہ سخت ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ پنجاب کی سیاست وفاق کا فیصلہ کرتی ہے مگر ایسا نہیں کہ تحریک انصاف پر سختیوں کی وجہ سے ووٹ بینک ختم ہو رہا ہے۔ البتہ عمران خان سیاسی حکمت عملی بہتر کر لیں اداروں سے مزاحمت ترک کردیں تو سختیاں ختم ہوسکتی ہیں اور پی ٹی آئی بھی ن لیگ یا پی پی پی کی طرح دوبارہ سیاسی عروج حاصل کر سکتی ہے۔ 
پنجاب حکومت کے عہدیدار کہتے آئے ہیں کہ پی ٹی آئی کے خلاف بطور جماعت کوئی کارروائی نہیں کی جا رہی ہے بلکہ اس جماعت کے صرف ان افراد کے خلاف کارروائی کی گئی جن کو عدالتوں سے سزائیں سنائی جا چکی ہیں یا وہ پولیس کو مقدمات میں مطلوب ہیں۔   

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست