صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور میں پولیو وائرس کے پھیلاؤ کا خطرہ ٹل نہیں سکا اور ملک کے دیگر علاقوں کی طرح شہر کے سیوریج کے نمونوں میں پولیو وائرس کی موجودگی کی تصدیق کا سلسلہ دوسال بعد بھی جاری ہے۔
ترجمان پولیو کنٹرول پروگرام یونیسیف نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ آؤٹ فال روڈ، گلشن راوی، ملتان روڈ ڈسپوزل سٹیشن میں پولیووائرس پایا گیا۔
قومی ادارہ صحت نے شہر کے سیوریج میں پولیو وائرس کی موجودگی کی تصدیق کی ہے۔ شہر کے سیوریج میں مسلسل دو سال پولیو وائرس پایا جارہا ہے۔
نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ (این آئی ایچ) اسلام آباد کے ریکارڈ کے مطابق کہ خیبر پختونخوا میں ضلع تورغر میں 12سالہ بچے میں وائلڈ پولیو وائرس کا کچھ عرصہ پہلے ایک نیا کیس سامنے آیا جس کے بعد پاکستان میں 2025 کے دوران پولیو کیسز کی مجموعی تعداد 30 ہو گئی ہے جن میں خیبر پختونخوا سے 19، سندھ سے نو اور پنجاب اور گلگت بلتستان سے ایک ایک کیس شامل ہیں۔
قومی ادارہ برائے انسداد پولیو پاکستان کے اعداد وشمار میں بتایا گیا ہے 127 سیوریج نمونوں کی جانچ کی گئی جن میں سے 47 میں پولیو وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔ ملک بھر کے 87 اضلاع سے 127 سیوریج نمونے اکٹھے کیے گئے تھے۔
نیشنل انسٹی ٹیوٹ آف ہیلتھ اسلام آباد کی ریجنل ریفرنس لیبارٹری برائے پولیو ایریڈیکیشن میں ہونے والی ٹیسٹنگ کے مطابق، 77 نمونے منفی اور 47 مثبت پائے گئے۔ تین نمونے ابھی لیب میں ہیں۔
پنجاب میں 20 نمونے منفی جب کہ 11مثبت آئے جن میں سب سے زیادہ لاہور کے ہیں۔ بلوچستان میں 19 منفی، چار مثبت خیبر پختونخوا میں 23 منفی، 10 مثبت آئے جب کہ ایک ابھی لیبارٹری میں ہے۔ سندھ سے لیے گئے نمونوں میں سات منفی، 21 مثبت اور ایک لیبارٹری میں ہے۔ اسی طرح اسلام آباد میں ایک نمونہ مثبت آیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وزیر اعلی پنجاب کی فوکل پرسن برائے انسداد پولیو عظمیٰ کاردار نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ’پنجاب میں کسی اور شہر میں سیوریج کے نمونوں میں پولیو وائرس زیادہ نہیں۔ لاہور میں اس لیے سیوریج میں پولیو وائرس کی تصدیق ہورہی ہے کیوں کہ یہاں دوسرے علاقوں سے آنے والے شہریوں کی تعداد زیادہ ہے۔ یہ وائرس ان کے ساتھ آتا ہے یہاں فضلے سے پھیل رہا ہے لیکن حکومت نے اس کے لیے خصوصی اقدامات کیے ہیں۔
’حکومت نے لاہور کی 122ان یونین کونسل میں جہاں وائرس زیادہ پایا گیا وہاں تین سے 11نومبر تک موثر مہم چلائی۔ اس بار پہلی بار پیدائش سے پانچ سال کے بچوں کے ساتھ 15سال کی عمر تک کے بچوں کو پولیو کے قطرے پلائے گئے ہیں۔ ہم نے اس کے لیے پولیو کی بڑی ٹیموں کے ذریعے متاثرہ علاقوں کےسکولوں اور گھر گھر جاکر مہم کو موثر بنایا ہے۔‘
عظمیٰ کاردار کے بقول: ’حکومت پولیو وائرس پر قابو پانے کے لیے سنجیدگی سے اقدامات کر رہی ہے۔ پولیو ورکرز کو تعریفی اسناد دینے کی تقریب رکھی گئی اور پولیو ورکرز کی حوصلہ افزائی کی گئی ۔حکومت پولیو وائرس کو روکنے کے لیے موثر مہم ہی چلا سکتی ہے اور وہ چلائی جارہی ہے۔‘