مالی خسارے میں کمی کے دعوے محض زبانی جمع خرچ؟

معاشی مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستانی حکومت غیر ٹیکس محصولات پر انحصار کر رہی ہے اور جو اعدادوشمار ڈاکٹر حفیظ شیخ نے دیے وہ محض نمبر ہیں۔

مشیر برائے خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ(بائیں) اور ایف بی آر کے چیئرمین شبر زیدی (دائیں)میڈیا سے گفتگو کرتے  ہوئے (اے ایف پی)

پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے مشیر برائے خزانہ ڈاکٹر حفیظ شیخ نے ہفتے کو ایک پریس کانفرنس میں رواں مالی سال میں جولائی سے ستمبر کے دوران مالی خسارے میں 36 فیصد کمی کا دعوی کیا ہے۔

حکومت کے مہیا کردہ اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ مالی سال(2018) کی تیسری سہ ماہی (جولائی سے ستمبر) کے دوران مالی خسارہ 783 ارب روپے تھا، جو موجودہ مالی سال (2019) کی اسی سہ ماہی میں کم ہو کر478 ارب روپے ہو گیا ہے۔

ڈاکٹر حفیظ شیخ نے اسلام آباد میں میڈیا کو بتایا کہ گذشتہ مالی سال کے دوران مالی خسارہ گراس ڈومیسٹک پراڈکٹ (جی ڈی پی) کا 8.9فی صد رہا تھا، جو رواں مالی سال کے دوران کم ہوا ہے۔

تاہم ڈاکٹر حفیظ شیخ نے تسلیم کیا کہ مالی خسارے میں بہتری ٹیکسوں سے حاصل ہونے والی آمدن کے باعث نہیں ہوئی، بلکہ اس کی وجہ ٹیکسوں کے علاوہ حاصل ہونے والے محصولات ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ رواں مالی سال کے دوران تجارتی خسارے میں بھی 35 فی صد کمی واقع ہوئی۔

مالی خسارہ ایسی صورت حال کو کہتے ہیں جب کسی حکومت کے کُل اخراجات اس کو حاصل ہونے والے محصولات یا آمدن سے زیادہ ہو جاتے ہیں۔

تاہم حکومتی آمدن میں قرضوں سے حاصل ہونے والی رقوم شامل نہیں کی جاتیں۔

کسی حکومت کی آمدن کا سب سے بڑا ذریعہ ٹیکسوں سے حاصل ہونے والے محصولات (آمدن) ہوتے ہیں۔

تاہم حکومتوں کو ٹیکسوں کے علاوہ دوسرے ذرائع سے بھی آمدن حاصل ہوتی ہے اور ایسی آمدن کو غیر ٹیکس محصولات (نان ٹیکس ریونیو) کہا جاتا ہے۔

جیسا کہ ڈاکٹر حفیظ شیخ نے بتایا کہ رواں مالی سال کے دوران سٹیٹ بینک آف پاکستان کو 200 ارب کا اضافی منافع ہوا جبکہ پاکستان ٹیلی کمیو نیکیشن اتھارٹی سے گذشتہ سال کے چھ ارب روپوں کے مقابلے میں اس سال 70 ارب روپے حاصل ہوئے۔

اسی طرح حکومت کو دو ایل این جی سے چلنے والے پاور پلانٹس سے 300 ارب اور 250 ارب روپے پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی کی مد میں حاصل ہوئے۔ یہ تمام غیر ٹیکس محصولات ہیں۔

تحریک انصاف کی حکومت گذشتہ سال کی طرح رواں مالی سال کے دوران بھی ٹیکس اکٹھا کرنے کے اہداف پورے کرنے میں ناکام رہی ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ مالی خسارہ کم کرنے کے لیے غیر ٹیکس محصولات کا سہارا لیاجارہا ہے۔

ماہرین کیا کہتے ہیں؟

سابق وزیر خزانہ اور نیشنل یونی ورسٹی آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی (نسٹ) اسلام آباد میں معاشیات کے استاد پروفیسر ڈاکٹر اشفاق حسن خان کہتے ہیں حکومت غیر ٹیکس محصولات پر انحصار کر رہی ہے اور جو اعدادوشمار انہوں نے دیے ہیں وہ محض نمبر ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا غیر ٹیکس محصولات میں تواتر نہیں ہوتا۔ ’یہ محض عارضی چیزیں ہوتی ہیں اور مستقل طور پر آپ کی معیشت کو سہارا نہیں دے سکتیں۔‘

ڈاکٹر اشفاق حسن خان نے مالی خسارے میں کمی سے متعلق حکومتی دعوؤں سے اتفاق تو کیا۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ غیر ٹیکس محصولات کو بڑھا کر بجٹ کا خسارہ کم کرنا کوئی بہتر طریقہ نہیں۔

انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا ٹیکسوں کے علاوہ حاصل ہونے والی آمدن پر انحصار اچھی چیز نہیں۔ کیونکہ یہ آمدنی کبھی ہو گی اور کبھی نہیں ہو گی۔

ڈاکٹر اشفاق حسن خان نے مزید کہا کہ موجودہ حکومت غیر ٹیکس محصولات پر اس لیے انحصار کر رہی ہے کیونکہ وہ ٹیکس اکٹھا کرنے میں ناکام رہی ہے۔

انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ ایف بی آر کا ٹیکس اکٹھا کرنے کا کوئی بھی ہدف پورا نہیں ہو پایا، جو ایک تشویش کی بات ہے۔

ڈاکٹر اشفاق کے مطابق: یوں ٹیکس اکٹھا نہ ہونا اور غیر ٹیکس محصولات پر انحصار معیشت میں مسائل کی وجہ بن رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا آئی ایم ایف کی شرائط میں ٹیکس دہندگان کی تعداد اور ٹیکس محصولات میں اضافہ بنیادی حیثیت اور اہمیت رکھتی ہیں اور اس لیے حکومت کے لیے ضروری ہے کہ زیادہ سے زیادہ ٹیکس کی مد میں آمدنی کو بڑھایا جائے، نہ کہ غیر ٹیکس محصولات کو۔

ڈاکٹر اشفاق حسن خان نے کہا اگر غیر ٹیکس محصولات نہیں آتے اور ٹیکس بھی اکٹھا نہیں ہوتا تو حکومت کو ترقیاتی پروگرام بند کرنا پڑیں گے، جس سے ملک میں ترقی کی رفتار پر منفی اثر پڑے گا۔

معاشی امور پر لکھنے والے صحافی ذیشان حیدر کا کہنا تھا مالی خسارے میں کمی سے متعلق دعوے ’محض زبانی باتیں اور الفاظ کا گورکھ دھندا ہیں۔‘

انہوں نے کہا جولائی سے ستمبر کوارٹر کی رپورٹ آئے گی تو اس میں حتمی اعداد و شمار دیکھ کر ہی کوئی رائے قائم کی جا سکتی ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں ذیشان حیدر نے حکومت کے تجارتی خسارہ کم ہونے سے متعلق دعوے کو چیلنج کرتے ہوئے کہا کہ یہ درآمدات کو کم کر کے کیا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا برآمدات میں کوئی اضافہ دیکھنے میں نہیں آیا اور کسی معیشت کی صحت کے لیے اہم بات دراصل برآمدات کا اضافہ ہے، نہ کہ درآمدات کا۔

ذیشان حیدر نے مزید کہا کہ گذشتہ کچھ سالوں میں سی پیک کے مختلف پراجیکٹس کے لیے آنے والی مشینری نے بھی درآمدات کے اعدادو شمار کو بڑھا دیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اب جو سی پیک مشینری کا آنا بند ہو گیا ہے تو درآمدات کے اعدادوشمار نے تو نیچے جانا ہی تھا۔ اس میں موجودہ حکومت کا کوئی ایسا کمال نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت