اشتہاروں میں کام کرنے والوں سے مشورہ اور کپتانی کے فیصلے

جب فیصلے ان لوگوں کے مشوروں سے ہوں جو سارا سال یا تو کمنٹری کرتے ہیں یا پھر کسی ڈٹرجنٹ پاؤڈر کے اشتہار میں کام کرتے ہیں تو پھر سبکی تو لازمی ہے!  

سرفراز احمد کی کپتانی میں پاکستان نے چیمپیئنز ٹرافی کے فائنل میں بھارت کو شکست دی تھی (اے ایف پی)

پاکستان کرکٹ بورڈ نے ہمیشہ کی طرح خراب کارکردگی کا ملبہ ٹیم کے کپتان پر ڈالتے ہوئے اظہر علی اور بابر اعظم کو سرفراز کی جگہ کپتان مقرر کردیا ہے۔
بورڈ کے اس فیصلے کی انڈپینڈنٹ اردو نے دو ہفتے پہلے ہی پیش گوئی کردی تھی کہ حالیہ شکستوں نے میدان میں ڈٹ کر مقابلہ کرنے والے سرفراز کے اعتماد اور حوصلوں کو مجروح کردیا ہے۔ ان کی باڈی لینگویج بتا رہی تھی کہ کپتانی کی مسند سے ان کی معزولی لکھی جا چکی ہے بس رسمی اعلان باقی ہے جس کا اہتمام بھی آج ہوگیا۔  

کم عمری سے ہی ہر لیول کی ٹیم کی کپتانی کرنے والے سرفراز ان قدرتی صلاحیتوں سے مالا مال ہیں جن کا ادراک شاید اس لیے بہت کم کیا گیا کہ وہ مزاجاً عاجزانہ ہیں اور کسی اندرون خانہ سیاسی چابک دستیوں سے کام نہیں لیتے۔     

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ٹیم ہاری تو ہے لیکن جس طرح میڈیا نے سرفراز کا آپریشن کیا، خاص طور سے ایک بدتہذیب صحافی نے سری لنکا سیریز کے اختتام پر شریف النفس سرفراز کی بے عزتی کی، اس سے وہ اتنے دلبرداشتہ ہوئے کہ سندھ کی کپتانی بھی چھوڑ دی۔ کیا یہ وہی صحافی نہیں جن کے ادارے کے کئی دوسرے صحافی حضرات بورڈ کے خرچے پر ورلڈ کپ کے لیے گئے تھے یا چیمپئینز ٹرافی میں انگلینڈ کے دورے میں تفریح کرتے پھر رہے تھے؟ 

سرفراز کا بحیثیت کپتان ٹیم میں برتاؤ تو کہیں کہیں سخت نظر آجاتا تھا لیکن جس طرح وہ نوجوان کھلاڑیوں سے شفقت سے پیش آتے تھے اس سے لڑکوں کا خون بڑھ جاتا تھا۔

’بیٹا بس ایک وکٹ، بیٹا بس تھوڑی اور محنت ۔۔۔‘ جیسے الفاظ اب سنائی نہیں دیں گے کیوں کہ اظہر علی کم گو اور شرمیلے ہیں اور کسی حد تک سست بھی ہیں۔ وہ فیصلہ کرنے کی صلاحیت سے عاری ہیں  نیز بیٹنگ والی کی سست روی اور حد سے زیادہ محتاط پن ان کی کپتانی میں نظر آتا ہے۔ 

لیکن سوال یہ ہے کہ ایک نااہل فوج کا کپتان صرف یہ کہہ کر ہٹا دیا جائے کہ فوج لڑنے کے قابل نہیں تو قصور فوج کا ہے یا کپتان کا؟

اظہر علی کو ایک ایسے دورے میں کپتان مقرر کیا ہے جس میں کانٹے ہی کانٹے ہیں۔ آسٹریلیا کا دورہ ہمیشہ سے پاکستان کے لیے ذلت آمیز رہا ہے اور ٹیم بڑے کھلاڑیوں کے باوجود اس طرح ہارتی رہی ہے جیسے بچوں کی ٹیم ہو۔  

آخری سیریز میں مسٹر آل مصباح کی کپتانی میں ٹیم نے تینوں ٹیسٹ میچوں میں شکست کا داغ سینے پر سجایا البتہ پہلے ٹیسٹ میں برسبین کی تیز وکٹ پر خطرناک آسٹریلین پیس اٹیک کے سامنے اسد شفیق نے ایک یادگار اننگ کھیل کر آسٹریلین نقاد کو حیران کردیا تھا اور اپنی سنچری سے فتح سے صرف تیس رنز کی دوری پر ہمت ہار گئے تھے ورنہ پاکستان طویل عرصہ کے بعد ایک میچ جیت جاتا۔ 

عمران خان سے لے کر وسیم اکرم اور وسیم سے انضمام الحق تک سارے کپتان شکست کا ہار پہن کر واپس آتے رہے ہیں لیکن سب نے یہی کہا ٹیم کمزور تھی خود کو شکست سے مبّرا رکھا۔ 

اب اظہر علی کیا ان کھلاڑیوں کے ساتھ ٹیم میں کوئی نئی روح پھونک سکیں گے جن کی نہ بیٹنگ اچھی ہے نہ بالنگ؟ اور فیلڈنگ کا تو بس خدا ہی حافظ ہے۔

بورڈ کی حکمت عملی بھی نہ سمجھ میں آنے والی کوئی مصری تحریر ہے جس نے آسٹریلیا کے ٹیسٹ دورے سے قبل کھلاڑیوں کو ٹی ٹونٹی کی ایک ایسی بھٹی میں جھونک دیا جس میں موجودہ کپتان تو شامل ہی نہیں اور اسد شفیق جیسے کھلاڑی بھی اپنی ٹیکنیک خراب کررہے ہیں۔

مناسب ہوتا اگر ٹیم ٹیسٹ کے لیے ٹریننگ کرکے اپنے اعتماد کو بحال کرتی جس کو ساؤتھ افریقہ سیریز میں بری طرح برباد کردیا تھا۔ نئے کپتان اظہر علی کے لیے تو وہ سیریز ڈراؤنا خواب تھا۔ 

آسٹریلیا کی تیز اور باؤنسی وکٹوں پر فٹ ورک اور ٹائمنگ ہی ایک کلید ہے جس کی پاکستان ٹیم میں بری طرح کمی ہے۔ یہی ایک سوال ہے کہ اگر سرفراز کی کارکردگی خراب ہے تو اظہر علی نے پچھلے دس ٹیسٹ میچوں میں کون سا کارنامہ انجام دیا ہے؟ وہ تو یہ فیصلہ نہیں کرپاتے کہ اوپنر جائیں یا ون ڈاؤن۔ 

دوسرے بابر اعظم کو کپتان بناتے ہوئے بورڈ بھول گیا کہ جب شعیب ملک کو سینئیر کھلاڑیوں کی موجودگی میں کپتان بنایا گیا تھا تو شعیب ملک نے لوہے کے چنے چبائے تھے۔ محمد یوسف اور شاہد آفریدی جیسے بڑے کھلاڑیوں نے ڈریسنگ روم کا ماحول اس قدر مکّدر کردیا تھا کہ اخبارات بھرے رہتے تھے۔ کیا بابر اعظم اس دباؤ کو برداشت کرسکیں گے جسے ٹنڈولکر اور کیلس جیسے بڑے کھلاڑی بھی نہ برداشت کرسکے اور اپنی کارکردگی سے ہاتھ دھو بیٹھے؟

بابر نوجوان ہیں اور باصلاحیت ہیں ان کو ابھی خود کو نکھارنا تھا اور اپنی غلطیوں کو سدھار کر واقعی ایک بڑا بیٹسمین ثابت کرنا تھا۔ کیا اب وہ اتنے ہی انہماک سے بیٹنگ کرسکیں گے ؟

یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب بورڈ کو اپنے کسی فیصلے سے پہلے سوچنا تھا لیکن جب فیصلے ان لوگوں کے مشوروں سے ہوں جو سارا سال یا تو کمنٹری کرتے ہیں یا پھر کسی ڈٹرجنٹ پاؤڈر کے اشتہار میں کام کرتے ہیں تو پھر سبکی تو لازمی ہے!  

سرفراز کی جگہ اظہر اور بابر اعظم تو آچکے ہیں لیکن کچھ نئے کپتان بھی تیار بیٹھے ہیں کہ کب آسٹریلیا کا ناکام دورہ ختم ہو اور کب ان کا نمبر آجائے کیوں کہ اگلی دو سیریز مقامی ہیں تو ایک آدھ میچ تو جیت ہی جائیں گے۔

سرفراز کو آپ کچھ بھی کہیں لیکن اس ٹائیگر صفت کھلاڑی نے اس ٹیم کو 8 سال کے بعد کوئی بڑا ٹورنامنٹ جتوایا تھا جس میں اس کی کپتانی پر انڈین صحافیوں نے اسے کوہلی سے بڑا کپتان قرار دیا تھا آج وہی آنکھوں کا تارا ایک چبھی ہوئی پھانس بن چکا ہے۔  

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ