پاکستان، بھارت کے درمیان پہلی مرتبہ پوسٹل سروس بھی بند

دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی نوعیت اکثر کشیدہ ہی رہی ہے لیکن اس مسلسل تناؤ کے باوجود دونوں کے مابین خط و کتابت کے لیے پوسٹل سروس پر کبھی پابندی عائد نہیں کی گئی تھی۔

دونوں ممالک کے قیدیوں کے لیے بھی یہ رابطے کاایک اہم  ذریعہ ہے۔ پاکستان میں قید بھارتی قیدی کلدیپ کمار یادو کی بہن ریکھا نانک  اپنے بھائی کے بھیجے گئے چند خط دیکھا رہی ہیں (اے یف پی)

پاکستان اور بھارت کشیدگی کا حالیہ نشانہ دونوں ممالک کے درمیان تقسیم کے بعد بھی ہر طرح کے حالات میں جاری رہنے والی ڈاک سروس بنی ہے کیونکہ بھارت نے بھی جوابی کارروائی کے طور پر پاکستان کے لیے یہ سروس بند کر دی ہے۔

اگرچہ پاکستان نے سروس کی بندش کے بارے میں کوئی ردعمل نہیں دیا ہے لیکن بھارتی حکومت نے اسے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ بھارت کے مواصلات اور آئی ٹی کے وزیر روی شنکر پرساد نے ایک بیان میں کہا کہ پاکستان نے یہ اقدام بغیر کسی پیشگی اطلاع کے یک طرفہ طور پر اٹھایا ہے۔

فیس بک پر ’ڈاک ٹو لاہور ود لوو‘ کے نام سے ایک گروپ میں شیئر ہونے والی معروف بھارتی اخبار ’انڈین ایکسپریس‘ کی خبر پہ نظر پڑی۔ یہ فیس بک گروپ بھارتی پنجاب میں رہنے والی حقوق انسانی کی کارکن اور لاہور کے نام لکھے گئے پریم پتروں کے لیے مشہور ولاگر ’ایمی سنگھ‘ کا ہے۔

خبر یہ تھی کہ بھارت اور پاکستان کے درمیان کشمیر کے معاملے پر بڑھتی کشیدگی کے پیش نظر تقسیم کے بعد پہلی مرتبہ اب خطوط کی ترسیل کا ایک اہم ذریعہ یعنی پاکستان اور بھارت کے درمیان پوسٹل سروس بھی بند ہوگئی ہے۔ ایمی سنگھ نے اس خبر کے ساتھ یہ پیغام درج کیا تھا کہ پاکستان میں رہنے والے دوست اس اقدام کو روکنے کے لیے آواز بلند کریں کیونکہ عوام کے درمیان رابطے کے بنیادی اور اہم ذریعے کو روکنا سرحد کے دونوں جانب آباد لوگوں کے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔

خبر کے مندرجات کے مطابق ’تقسیم ہند کے بعد سے پاکستان اور بھارت کے درمیان اب تک تین بڑی جنگیں اور کارگل کی پہاڑیوں میں ایک طویل جھڑپ ہو چکی ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کی نوعیت اکثر و بیشتر کشیدہ ہی رہی ہے لیکن اس مسلسل کشیدگی کے باوجود دونوں ممالک کے عوام کے مابین باہمی رابطے کا ایک اہم ذریعہ یعنی خط و کتابت کے لیے پوسٹل سروس پر کبھی پابندی عائد نہیں کی گئی۔ لیکن رواں سال اگست کے مہینے میں مودی حکومت کی طرف سے بھارت کے زیرانتظام کشمیر کو بھارتی آئین میں خصوصی حیثیت دینے والے آرٹیکل 370 اور 35 اے، کو ختم کیے جانے کے بعد صورت حال یکسر بدل گئی ہے۔

پاکستان نے بھارت سے آنے والا آخری خط اگست کی 27 تاریخ کو وصول کیا تھا۔ اس کے بعد سے کوئی ڈاک بھارت سے پاکستان نہیں پہنچ رہی کیونکہ پاکستانی حکام نے بھارت کی جانب سے آنے والی ڈاک کو وصول کرنے سے انکار کر رکھا تھا۔ اب پاکستان سے بھی بھارت کی جانب کوئی ڈاک نہیں جائے گی۔ ’انڈین ایکسپریس‘ میں شائع ہونے والی اس خبر کے مطابق بھارتی ڈاک سروس کے ڈائریکٹر کا کہنا ہے کہ ڈاک کی بندش پاکستان کا یک طرفہ فیصلہ تھا اور یہ کہا نہیں جاسکتا کہ پاکستان اپنا فیصلہ کب تبدیل کرے گا۔

آج انڈین پوسٹل سروس بورڈ کے سیکریٹری اور انٹرنیشنل ریلیشز اینڈ گلوبل بزنس کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل کی طرف سے بھارتی ڈاک خانوں کے لیے جاری ایک حکم نامے میں پاکستان بھیجے جانے والے خطوط اور پارسلز کی بکنگ اور کلیکشن پر اگلے حکم تک پابندی لگا دی گئی ہے۔ پیر21 اکتوبر سے کوئی خط، پارسل یا سپیڈ پوسٹ کے ذریعہ پاکستان بھیجنے کے لیے کوئی چیز قبول نہیں کی جا رہی۔

بھارت میں اس وقت مختلف شہروں میں 28 ایسے ڈاک خانے ہیں جو بین الاقوامی ڈاک کے معاملات دیکھ سکتے ہیں۔ ان میں سے دہلی اور ممبئی میں واقع دو فارن پوسٹ آفس ایسے ہیں جو پاکستان خطوط اور پارسل بھیجنے کا کام کرسکتے ہیں۔ دہلی کا فارن پوسٹ آفس راجستھان، اترپردیش، ہریانہ، دہلی، پنجاب اور ہماچل پردیش کے ساتھ ساتھ جموں و کشمیر سے پاکستان جانے والی ڈاک کو سنبھالتا ہے جب کہ بقیہ ریاستوں کی ڈاک ممبئی فارن پوسٹ آفس کے ذریعے سے پاکستان بھیجی جاتی ہے۔

گوکہ انٹرنیٹ کی سہولت عام ہو جانے کے بعد اب لوگ ڈاک کے ذریعے خطوط کم ہی بھیجتے ہیں، لیکن کتابوں اور رسائل کی ترسیل کا سب سے اہم ذریعہ اب بھی ڈاک ہی ہے۔ عام لوگوں کا کہنا ہے کہ ان سے یہ حق چھینا نہیں جانا چاہیے۔ بعض افراد تو اسے انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دے رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان انڈیا پیپلز فورم فار پیس کے رکن جتن ڈیسائی نے اس صورت حال پر کہا: ’مجھے ایسا کوئی واقعہ یاد نہیں کہ 1965 کی جنگ اور کارگل جنگ کے وقت بھی بھارت اور پاکستان کے درمیان پوسٹل رابطے پر پابندی عائد ہوئی ہو۔‘

ان کا کہنا تھا کہ بعض دستاویزات ڈاک کے ذریعے ہی بھیجنے پڑتی ہیں۔ مثلاً اگر کوئی بھارتی ماہی گیر پاکستان کی قید میں چلا جاتا ہے تو اس کو رہا کرانے کے لیے قانونی چارہ جوئی کے خاطر وکیل کو پاور آف اٹارنی کی ضرورت ہوتی ہے جسے ڈاک کے ذریعے ہی بھیجنا پڑتا ہے کیونکہ عدالتیں ابھی تک بھی ای میل کو تسلیم نہیں کرتیں۔ دونوں ملکوں کے شہری اپنے رشتہ داروں کو سفری دستاویزات بالخصوص ویزا حاصل کرنے کے لیے ضروری کاغذات بھی عموماً ڈاک سے ہی بھیجتے ہیں کیونکہ حکام ای میل سے بھیجی گئی دستاویزات کی نقل بعض اوقات قبول نہیں کرتے اور اصل دستاویزات کا مطالبہ کرتے ہیں۔

اس نئی پیش رفت سے سب سے زیادہ پریشانی پنجاب کے لوگوں کو ہو رہی ہے۔ چونکہ ان دنوں سکھوں کے پہلے گرو بابا نانک کے جنم کی 550ویں تقریبات منائی جا رہی ہیں اور اس موقع پر اشاعتی کمپنیاں ایک دوسرے کو کتابیں وغیرہ بھیجنا چاہتی ہیں۔ لیکن پوسٹل سروس بند ہو جانے کے سبب وہ سخت مایوس ہیں۔

لاہور سے گرومکھی رسم الخط میں شائع ہونے والا سہ ماہی جریدہ ’پنجاب دے رنگ‘ بھارت میں سکھوں میں کافی پسند کیا جاتا ہے لیکن اب وہ بھی آنا بند ہوگیا ہے۔ اخبار کے  مطابق دہلی میں پاکستانی سفارت خانے کا کہنا ہے کہ اسے پوسٹل سروس بند ہوجانے کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے۔

چونکہ اس فیصلے سے متاثرہ ایک فریق لاہور کے نام خط لکھنے والا یہ فیس بک گروپ (لیٹر ٹو لاہور ود لوو) بھی ہے لہذا راقم نے اس کے لیے اس کوشش کی روح رواں ایمی سنگھ سے فیس بک کے ذریعےدونوں حکومتوں کے اس حالیہ اقدام پر ان کی رائے مانگی تو انہوں نے تحریری پیغام میں کہا کہ ’یہ عوام کا فیصلہ نہیں ہے بلکہ یہ سرکاری فیصلہ ہے جو پاکستان کے اپنے لوگوں کے حق میں بھی نہیں ہے۔ ڈاک آتی جاتی رہنی چاہیے۔ یہ دونوں جانب کے امن پسند، انصاف پسند اور محبت کرنے والے شہریوں پر فرقہ پرستانہ حملہ ہے اور اسے ہرگز نافذ نہیں ہونا چاہیئے۔‘

پاکستانی شہریوں نے حکومت سے اپیل کی ہے کہ انسانی ہمدردی کی بنیادوں پر خاص طور پر دونوں جانب آباد سکھ برادری کے پیشوا بابا گرو نانک کی پیدائش کے550 ویں سال کے موقع پر پاکستان بھارت ڈاک سروس کو بند کرنے کا یہ اقدام واپس لیا جائے کیونکہ اس سے لوگ تکلیف میں ہیں۔

پنجابی زبان کے مشہور شاعر استاد دامن نے پاکستان اور بھارت کے سیاستدانوں اور عسکری قیادت کے مابین شدید کشیدگی پر پنجابی زبان میں ایک برحق قطعہ لکھا تھا جس کے بول یہ تھے:

واہگے نال اٹاری دی نہیں ٹکر

 نہ گیتا نال قرآن دی اے

 نہیں کفر اسلام دا کوئی جھگڑا

ساری گل ایہہ نفعے نقصان دی اے

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت