’میٹرو منصوبے مکمل ہونے تک ادھار بند ہے‘

راولپنڈی اور اسلام آباد میں میٹرو بس سروس کی ’شاندار کامیابی‘ کے بعد اسی میٹرو منصوبے کو پھیلانے کا اعلان تو کر دیا گیا لیکن حکومت کے جانے کے بعد کسی نے مڑ کر پوچھنے کی زحمت نہیں کی۔

وہ مثال تو آپ نے سنی ہی ہوگی کہ خربوزہ، خربوزے کو دیکھ کر رنگ پکڑتا ہے، کچھ ایسا ہی پاکستان میں میٹرو بس منصوبوں کا بھی حال ہے۔

خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کے گذشتہ دورِ حکومت کے آخری دنوں میں پشاور بس ریپڈ ٹرانزٹ کے نام سے میٹرو بس سروس کا ایک منصوبہ شروع کیا گیا جو آج تک مکمل نہیں ہو سکا۔ ایسا ہی کچھ مسلم لیگ ن کے دورِ حکومت میں بھی ہوا۔

راولپنڈی اور اسلام آباد میں میٹرو بس سروس کی ’شاندار کامیابی‘ اور ایئرپورٹ کی منتقلی کے بعد اسی میٹرو منصوبے کو پھیلانے کا اعلان تو کر دیا گیا لیکن حکومت اور ایئرپورٹ کے جانے کے بعد کسی نے مڑ کر پوچھنے کی زحمت نہیں کی۔

کشمیر ہائی وے سے ہوتے ہوئے نیو اسلام آباد ایئرپورٹ تک جانے والے اس میٹرو بس منصوبے پر کُل 16 ارب کی لاگت آنی تھی جس میں سے اب تک نو ارب تو لگا دیے گئے ہیں اور جو باقی رہ گیا ہے وہ فی الحال باقی ہی ہے۔

تقریباً 26 کلومیٹر طویل اس منصوبے کے لیے ٹریک تو بچھا دیا گیا ہے مگر اس پر بسیں کب چلیں گی، یہ تو وہاں کام کرنے والے مزدوروں کو بھی نہیں معلوم۔

حکام نے گذشتہ دنوں سینٹ کی ایک کمیٹی کو بتایا کہ آئندہ برس فروری تک اسلام آباد میٹرو کی یہ نئی اضافی لائن مکمل تو کر لی جائے گی لیکن اسے کون چلائے گا اور کب تک چلے گی اس بارے میں ابھی کوئی فیصلہ نہیں ہوا ہے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس میٹرو بس منصوبے کے مقاصد میں سے چند ایک یہ تھے کہ ایئرپورٹ جانے والے عوام کو سہولت فراہم کی جائے گی۔ دوسرا سڑکوں پر ٹریفک کے دباؤ میں کمی آئے گی اور چونکہ اس میٹرو نے ایئرپورٹ تک جانا ہے تو وہاں بننے والی ہاؤسنگ سوسائٹیز نے بھی یہ کہہ کر پلاٹ فروخت کر دیے کہ ’ائیرپورٹ اور میٹرو سے قریب ترین۔‘

سوشل میڈیا ہو یا مرکزی میڈیا آپ کو پشاور بی آر ٹی کے بارے میں ہر کوئی بات کرتا دکھائی دے گا لیکن 2017 میں مکمل ہونے والے اس میٹرو منصوبے کے بارے میں کوئی سوال نہیں کر رہا کہ آخر اتنے عرصے میں یہ منصوبہ اب بھی تکمیل کے قریب کیوں نہیں پہنچ پایا؟

شاید اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ اس منصوبے کے آس پاس بڑی اور کھلی سڑکیں موجود ہیں اور جب ٹریفک میں خلل پیدا نہیں ہوتا تو بھائی ہمیں کیا مسئلہ اور ہم کیوں پوچھیں۔

جہاں تک بات حکام کی ہے تو وہ کر بھی کیا سکتے ہیں، ان سے پوچھ کر تھوڑی یہ منصوبہ شروع کیا گیا تھا۔ اوپر سے اقتدار میں آتے ہی کشمیر کا مسئلہ، دھرنوں کا موسم وغیرہ وغیرہ۔ اب ایسے کاموں میں وقت تو لگتا ہی ہے، بی آر ٹی کو ہی دیکھ لیں۔۔۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ