چوہدری برادران ہی مفاہمت کے لیے موزوں کیوں؟

صحافی ندیم رضا کے مطابق چوہدری برادران ہر حکومت اور سیاسی جماعت کے لیے اس لیے قابل قبول ہوتے ہیں کیونکہ وہ کبھی ذاتیات کی سیاست نہیں کرتے۔

گذشتہ 14سال کے دوران چوہدری شجاعت حسین نے ملک کی متحارب سیاسی قوتوں میں مفاہمت کی کم از کم تین بار کوششیں کیں (ائے ایف پی فائل)

پاکستان کی سیاست میں آزادی مارچ کی گونج ہر طرف سنائی دے رہی ہے۔ حکومت اور اپوزیشن جماعتیں اب بات چیت کے ذریعے مسائل حل کرنے میں سنجیدہ ہوتی دکھائی دے رہی ہیں جس کی بڑی مثال حکومتی مذاکراتی ٹیم کے ساتھ سابق وزیر اعظم چوہدری شجاعت حسین اورچوہدری پرویز الٰہی کو متحرک کرنا ہے۔

ذرائع کے مطابق وزیراعظم عمران خان اور دیگر حکومتی حلقوں کی جانب سے حکومتی اور اپوزیشن کی رہبر کمیٹی کے درمیان رابطے بے سود ہونے پر چوہدری برادران کو ٹاسک سونپا گیا اور وہ لاہور سے پیر کی رات اسلام آباد پہنچے جہاں انہوں نے مولانا فضل الرحمٰن اور رہبر کمیٹی کے اراکین سے تفصیلی ملاقات کی۔ اس دوران انہیں اپوزیشن کے مطالبات سے آگاہ کردیاگیا۔

اس ملاقات کے بعد میڈیا سے گفتگو میں سپیکر پنجاب اسمبلی چوہدری پرویز الٰہی اور اپوزیشن جماعتوں کی رہبر کمیٹی کے سربراہ اکرم درانی نے مسائل مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کا عندیہ دیا۔حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ڈیڈ لاک نہ ہونے کا دعویٰ بھی کیاگیا۔

حکومتی مذاکراتی ٹیم نے اپوزیشن کے مطالبات منگل کی دوپہر وزیر اعظم عمران خان سے ملاقات میں انہیں پہنچادیئے۔جبکہ منگل کی شام دوبارہ حکومتی مذاکراتی ٹیم  کی رہبر کمیٹی سے ملاقات متوقع تھی۔

 واضح رہے حکومتی ٹیم میں چوہدری پرویز الٰہی بھی رکن ہیں۔

چوہدری برادران کا مذاکرات میں کردار

سینیئر صحافی ندیم رضا نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ چوہدری برادران ہر حکومت اور سیاسی جماعت کے لیے اس لیے قابل قبول ہوتے ہیں کیونکہ وہ کبھی ذاتیات کی سیاست نہیں کرتے۔

ندیم رضا کا کہنا تھا کہ ’اس سے پہلے بھی کئی بار انہوں نے سیاسی بحران کو ختم کرنے کے لیے اپنا مفاہمتی کردار ادا کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کے مذاکرات میں طے ہونے والے معاہدوں کی پاسداری نہیں کی گئی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اس بار بھی آزادی مارچ سے سیاسی پارہ ہائی ہوا تو حکومت نے چوہدری برادران کو میدان میں اتارا ہے۔‘

انڈپینڈنٹ اردو نے سوال کیا کہ کیا اس بار چوہدری برادران دونوں فریقین میں معاملات حل کرا پائیں گے اور کن مطالبات پر سنجیدگی کا اظہار کیا جا رہا ہے؟ اس کے جواب میں ندیم رضا نے کہا کہ ’چوہدریوں کی ’مٹی پاؤ اور آگے بڑھو‘ والی پالیسی ہمیشہ کامیاب ہوتی ہے۔ وہ کچھ دو اور کچھ لو کی پالیسی سے بڑے بڑے رہنماؤں کو رام کرنے کا فن جانتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ اس بار اپوزیشن کی جانب سے وزیر اعظم کے استعفے کے مطالبے کو حکومت نے مسترد کر دیا تاہم قومی حکومت جس میں سب کی نمائندگی کا فارمولا بھی زیر غور آیا لیکن یہ فارمولا اپوزیشن نے مسترد کر دیا۔

ندیم رضا کے بقول ’اب ان ہاؤس تبدیلی یا اگلے سال نئے انتخابات کرانے پر گفتگو ہوتی نظر آرہی ہے لیکن جو بھی فارمولا طے ہوگا اس پر حکومت اور اپوزیشن کا متفق ہونا لازم ہے۔ دیکھنا یہ کہ حکومتی اتحادی چوہدری برادران اپنی خصوصیات سے اپوزیشن کو اور حکومت کو کس طرح ایک نقطے پر لانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔‘

ندیم رضا نے امید ظاہر کی کہ کیونکہ چوہدری برادران حکومت اپوزیشن اور مقتدر حلقوں سمیت سیاسی لیڈروں نواز شریف اور آصف علی زرداری کے لیے بھی قابل اعتماد ہیں اس لیے ہوسکتا ہے کہ آئندہ چند دن میں کوئی نہ کوئی معاملہ طے پا جائے۔

ماضی کا تناظر

ماضی میں منظر عام پر آنے والی خبروں کے مطابق گذشتہ 14سال کے دوران چوہدری شجاعت حسین نے ملک کی متحارب سیاسی قوتوں میں مفاہمت کی کم از کم تین بار کوششیں کیں۔

پہلی بار 17 مارچ 2005 کو جب بگٹی قبائل اور نیم فوجی دستوں کے درمیان جھڑپوں میں 70 افراد مارے گئے تھے اس وقت بھی چوہدری شجاعت نے نواب اکبر بگٹی سے مذاکرات کیے جس کے نتیجے میں اکبر بگٹی نے ناکہ بندی ختم کرنے کا اپنے قبائل کو حکم دیا۔ سردار شیر علی مزاری، براہمداغ بگٹی اور تابش بگٹی کی موجودگی میں تنازعات کے حل کے لیے کمیٹی بنائی گئی لیکن یہ بھی تاریخ ہے کہ نواب اکبر بگٹی کوہلو میں واقع اپنی پناہ گاہ میں فوجی آپریشن کے دوران اپنے 26 ساتھیوں  کے ساتھ مارے گئے تھے۔

دوسری مرتبہ تین سے 11 جولائی 2007 تک جب سکیورٹی اداروں نے اسلام آباد میں لال مسجد کا محاصرہ کیا۔ اس دوران چوہدری شجاعت حسین نے اس وقت کے وزیر مذہبی امور اعجاز الحق و دیگر وزرا محمد علی درانی اور طارق عظیم کے ساتھ مل کر عبدالرشید غازی سے مذاکرات کی کوشش کی لیکن مذاکرات ناکام رہے۔

اور تیسری بار  جنوری 2013 میں پیپلز پارٹی قیادت کی درخواست پر چوہدری شجاعت حسین اور پرویز الٰہی نے پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ طاہرالقادری کو 14 تا 17 جنوری 2013 کو پیپلز پارٹی حکومت کے خلاف اپنا لانگ مارچ ترک کرنے پر قائل کرنے کی کوشش کی۔

اس دوران معروف سرمایہ دار ملک ریاض بھی طاہر القادری سے ملنے گئے تھے لیکن انہیں ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی جبکہ طاہر القادری نے چوہدری برادران کو بھی صاف انکار کر دیا اور اسلام آباد میں دھرنا دیا تھا۔

دیکھنا یہ ہے کہ اس بار چودھری برادران کی مفاہمتی پالیسی کس حد تک کامیاب ہوتی ہے یا اسکے نتائج بھی ماضی کی طرح وقتی مٹی پاو والے ہی ہوں گے۔

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست