احمدی عبادت گاہ کی تعمیر: ’معاملہ حساس، شکایت خارج کرتے ہیں‘

مردان میں احمدیہ عبادت گاہ کی از سر نو تعمیر کے حوالے سے سٹیزن پورٹل پر درج شکایت مظاہروں کے بعد خارج کر دی گئی۔

جون، 2010 کی اس تصویر میں ایک پولیس اہلکار لاہور میں احمدیہ عبادت گاہ کے باہر پہرہ دے رہا ہے(اے ایف پی)

صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع مردان میں احمدیوں کی ایک عبادت گاہ کی از سر نوتعمیر کے حوالے سے پاکستان سٹیزن پورٹل پر درج ایک شکایت کا سکرین شاٹ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد علاقے میں کشیدگی پھیل گئی اور مظاہرین سڑکوں پر نکل آئے۔

یہ شکایت تین اکتوبر کو مردان کے ایک رہائشی نے درج کرائی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ بازار بکٹ گنج میں احمدیوں کی 1988 میں مسمار کی جانے والی عبادت گاہ دوبارہ تعمیر کی جائے۔

 شکایت درج کرانے والے رہائشی کا کہنا تھا ’وزیر اعظم عمران خان پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کی بات کرتے ہیں اور اگر ملک میں اقلیتوں کو مکمل حقوق حاصل ہیں تو مردان میں احمدیوں کی عبادت گاہ ابھی تک کیوں دوبارہ تعمیر نہیں کی گئی؟‘

چاراکتوبر کو شکایت پر کارروائی کرتے ہوئے ڈائریکٹر ہیومن رائٹس نے سیکریٹری اوقاف و مذہبی امور کو لکھا کہ اس مسئلےکو دیکھا جائے تاکہ شکایت کنندہ کی شکایت دور ہو سکے۔

سٹیزن پورٹل کے مطابق 18 اکتوبر کو سیکریٹری اوقاف نے ڈپٹی کمشنر مردان کو لکھا کہ ایک فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ مرتب کر کے محکمہ مذہبی امور کو ارسال کی جائے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کے بعد 21 اکتوبر کو ڈپٹی کمشنر نے اسسٹنٹ کمشنر مردان کو لکھا کہ تین دن کے اندر اندر اس معاملے پر رپورٹ مرتب کر کے ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں جمع کرائی جائے تاکہ شکایت دور کرنے کے لیے اسے متعلقہ محکمے کو بھیجا جائے۔

یکم نومبر کو شکایت کنندہ کو مخاطب کرتے ہوئے سیٹیزن پورٹل پر لکھا گیا کہ آپ کی شکایت دور کرنے کے لیے اسے تحصیل دار مردان کو بھیجا گیا ہے تاکہ وہ مزید جانچ پڑتال کریں۔

تاہم جب یہ معاملہ سوشل میڈیا پر وائرل ہوا تو مردان میں اس کے خلاف مظاہرہ کیا گیا، جس کے بعد دس نومبر کو سٹیزن پورٹل پر شکایت کنندہ کو لکھا گیا، ’یہ حساس نوعیت کا مذہبی مسئلہ ہے لہٰذا یہ پورٹل کے دائرہ اختیار میں نہیں، اس لیے آپ کی شکایت خارج کی جاتی ہے۔‘

اس سارے معاملے پر مردان میں مذہبی تنظیموں اور شہریوں نے مظاہرہ کیا، جس کی قیادت پاکستان تحریک انصاف کے مقامی رہنما اور سابق نیبر ہڈ کونسل ناظم ساجد اقبال مہمند کر رہے تھے۔

ساجد نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا’ ہمیں بتایا گیا تھا کہ حکومت شکایت دور کرنے کے لیے احمدیوں کی عبادت گاہ کو دوبارہ تعمیر کرانا چاہتی ہے جس کو ہم کبھی نہیں ہونے دیں گے۔‘

انھوں نے دعویٰ کیا کہ مردان میں احمدی برادری کے اب چند ہی لوگ رہ گئے ہیں ’جو اس قسم کے ہتھکنڈے استعما ل کر کے اشتعال پیدا کرنا چاہتے ہیں۔‘

’اگر مردان میں احمدی لوگ نہ ہونے کے برابر ہیں تو ان کے لیے عبادت گاہ تعمیر کرنے کی کیا منطق ہے؟ احمدی پاکستانی آئین کے مطابق غیر مسلم ہیں اور وہ اپنی عبادت گاہ کو مسجد کا نام نہیں دے سکتے اور نہ ہی مسجد کی طرز پر وہ اپنی عبادت گاہ تعمیر کر سکتے ہیں۔‘

انھوں نے بتایا اس سلسلے میں دیگر علما سمیت ایک وفد نے ڈپٹی کمشنر سے ملاقات  کی، جس میں ڈپٹی کمشنر نے یقین دہانی کرائی کہ حکومت کا علاقے میں عبادت گاہ بنانے کا کوئی منصوبہ نہیں، وہ ناموس رسالت پر یقین رکھتے ہیں اور ایسا کام نہیں کریں گے۔

اس سلسلے میں گذشہ روز ڈپٹی کمشنر مردان عابد وزیر نے میڈیا سے گفتگو میں بتایا یہ شکایت سٹیزن پورٹل پر درج ہوئی تھی اور اس پر کوئی کام ہوا اور نہ ہو گا۔

انھوں نے ملاقات کے لیے آنے والے وفد سے گفتگو میں کہا: ’ناموس رسالت کے معاملے میں آپ آگے ہوں گے اور ہم آپ کے پیچھے۔ یہ صرف ایک شکایت تھی جو سٹیزن پوٹل پر درج ہوئی ۔ یہ ساری افواہیں ہیں جن پر کان دھرنے کی ضرورت نہیں۔‘

مقامی صحافی عبدالستار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا یہ عبادت گاہ 1988 میں ایک ہجوم نے مسمار کر دی تھی، جس کے بعد زمین کو متنازع قرار دے کر حکومت کی تحویل میں دے دیا گیا تھا۔

انھوں نے بتایا مردان میں کئی دہائیوں پہلے احمدیوں کے چند بڑے کاروباری خاندان آباد تھے لیکن اب وہ یہاں سے منتقل ہو چکے ہیں۔

عبد الستار کے مطابق جس شخص نے سٹیزن پورٹل پر شکایت کی وہ اس متنازع زمین کی ملکیت کا دعویٰ بھی کرتا ہے لیکن ضلعی انتظامیہ نے یہ شکایت خارج کر دی ہے۔

انھوں نے مزید بتایا کہ مقامی لوگوں نے ڈپٹی کمشنر کو کہا تھا کہ اگر ضلعی انتظامیہ چاہے تو وہ یہ زمین خرید کر اس پر مسجد تعمیر کر سکتے ہیں، جس پر ڈپٹی کمشنر نے کہا چونکہ یہ زمین متنازع ہے لہٰذا ایسا کرنا ممکن نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان