عمران خان امریکہ میں کیوں مقبول ہیں؟

خان صاحب بیرون ملک مقیم پاکستانیوں میں اتنے مقبول کیوں ہیں؟ اس محبت اور مقبولیت کا کیا مقصد ہے، انہیں اس کا کیا فائدہ ہے اور یہ کہ وہ پاکستان کے حالات سے کتنا واقف ہیں؟

سب کو پتہ ہے عمران خان میں لالچ نہیں: محمد راحیل خان (اے ایف پی)

چند ماہ قبل جب وزیر اعظم پاکستان عمران خان سرکاری دورے پر امریکہ پہنچے تو یہاں ان کے جلسے میں امریکہ میں مقیم پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی۔ ان شرکا میں کچھ تو ایسے تھے جو پاکستانی ووٹر ہیں اور کچھ نہیں، اور کچھ فرسٹ جنریشن پاکستانی امریکن ہونے کی وجہ سے ووٹ دینے کے اہل نہیں تھے۔

اس جلسے میں خان صاحب کی مقبولیت اور یہاں موجود پاکستانیوں کا ان کے لیے پیار نہ صرف امریکیوں کے لیے حیران کن تھا بلکہ پاکستان میں خان صاحب کو تنقید کا نشانہ بنانے والے بھی پاکستانی نژادامریکیوں کے اس جذبے کو سراہے بغیر نہ رہ سکے۔

اب یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خان صاحب بیرون ملک مقیم پاکستانیوں میں اتنے مقبول کیوں ہیں؟ اس محبت اور مقبولیت کا کیا مقصد ہے، انہیں اس کا کیا فائدہ ہے اور یہ کہ وہ پاکستان کے حالات سے کتنا واقف ہیں؟

رواں برس اگست کے مہینے میں میں یہی سوال اور اپنے ملک کے حوالے سے کئی دیگر معاملات کا حل ڈھونڈنے فل برائٹ ہمفری فیلو شپ پر امریکہ پہنچی۔ اس فیلوشپ میں کمیونیکیشن اور جنرل ازم کے پروگرام میں میں واحد پاکستانی صحافی تھی جس کے نام کی لاٹری نکلی اور میں اپنے اندر کی چھپی ’لیڈرشپ کوالٹیز‘ کو جگانے اور اپنی صحافتی کارکردگی کو مزید نکھارنےامریکہ کی گرم ترین ریاست ایریزونا کے شہر فینکس کے صحافتی اسکول والٹر کرونکائٹ اسکول آف جرنلزم پہنچ گئی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہمفری فیلوشپ کے ایک مرحلے کے دوران میرے کالج سے میرے سمیت 11 اور ملکوں کے صحافیوں کو واشنگٹن ڈی سی لایا گیا۔ یہاں میری ملاقات دیگر ریاستوں جن میں ورجینیا اور میری لینڈ میں مقیم پاکستانیوں سے بھی ہوئیں۔ یہ لوگ کب پاکستان آئے، اپنی زندگی امریکہ میں کیسے گزارتے ہیں وغیرہ وغیرہ یعنی کئی موضوعات پر ان سے بات چیت ہوئی۔ جیسے جیسے گفتگو بڑھتی گئی ویسے ویسے ہم امریکہ میں بیٹھے اسلام آباد میں جاری مولانا فضل الرحمٰن کی آزادی مارچ اور دھرنے تک پہنچ گئے۔

امریکہ آئے تین ماہ ہو چکے تھے اور پاکستانی سیاست پر بحث نہ کر کے دل ویسے ہی بے چین تھا۔ آزادی مارچ اور پاکستان میں سیاست کی گرمی نے ڈی سی کی سردی میں دل گرما کر رکھ دیا۔

محمد راحیل احمد خان 36 برس کے ہیں، ان کی بیشتر زندگی سعودی عرب اورکینیڈا میں گزری لیکن کچھ عرصے قبل یہ امریکہ میں مستقل سکونت اختیار کر چکے ہیں۔ راحیل احمد خان آزادی مارچ کے حوالے سے پاکستانیوں سے بہت کچھ کہنا چاہتے ہیں:

’ہمیں یہ سب چیزیں کیوں صحیح نظر آتی ہیں، سب کو پتہ ہے۔ اپوزیشن پارٹیوں کو پتہ ہے۔ پوری دنیا کو پتہ ہے کہ عمران خان کے اندر کوئی لالچ نہیں ہے۔ وہ پیسوں کے پیچھے نہیں بھاگ رہے، آزادی مارچ میں بھی یہ نعرے نہیں لگ رہے کہ وہ چور ہیں۔ میرے حساب سے تو یہ مارچ صرف اپنے ذاتی مفاد کے لیے ہو رہی ہے وہ مفاد جو خان صاحب کی حکومت میں ممکن نہیں ہیں۔ آج زرداری،نواز سب ایک ہو گئے ہیں۔ کیا یہ ایک دوسرے پر لعن طعن نہیں کرتے تھے؟ صرف اس کا جواب دیں کہ یہ سب ایک ساتھ کیوں ہو گئے؟

’ایک جگہ پوری سوشل میڈیا بھری پڑی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ عمران خان کو سپورٹ کرتی ہے وہ سلیکٹڈ ہیں۔ ملک کے حالات خراب ہو رہے ہیں، آئی ایم ایف جانا پڑ گیا، جگ ہنسائی ہو رہی ہے، وغیرہ وغیرہ۔ ارے بھائی کوئی بھی پرفیکٹ نہیں ہوتا۔‘

راحیل جہاں عمران خان کو پوری طرح سپورٹ کرتے ہیں، وہیں ان کے والد محمد خالد خان، عمران خان سے زیادہ مولانا کے آزادی مارچ کے حوالے سے بات کرنا چاہتے تھے۔ خالد صاحب کی عمر 69 برس ہے وہ امریکہ میں سرکاری نوکری کرتے ہیں اور 2005 کے بعد سے امریکہ کی ریاست ورجینیا میں مقیم ہیں۔ خالد کہتے ہیں: ’مولانا صاحب استعفے کا مطالبہ کیسے کر سکتے ہیں اور یہ کہنا کہ اگر استعفیٰ نہ دیا تو منتخب وزیر اعظم کو گھر سے گرفتار کر لیں گے۔ یہ سب عمران خان کی مہنگائی کے پیچھے  پڑ گئے ہیں کیا، پچھلی حکومتوں میں مہنگائی نہیں تھی؟ اور ان کے مارچ میں آنے والے معصوم طالب علموں کو پتہ ہی نہیں ہے کہ وہ وہاں کیوں ہیں؟ ان کے لیڈر برین واشنگ کرتے ہیں اور اپنے مقاصد کے لیے انہیں استعمال کرتے ہیں۔‘

مجھے جہاں وزیر اعظم عمران خان کی حمایتی ملے جو ان کے خلاف کوئی بات نہیں سننا چاہتے، وہیں میری ملاقات کچھ ایسے پاکستانی امریکیوں سے ہوئی جو خان صاحب کے وعدے پورے نہ کرنے پر ان سے ناراض بھی ہیں۔

ریاست میری لینڈ کے شہر بالٹی مور کی رہائشی 53 سالہ فرحانہ مفتی جن ویسے تو پشاور کی ہیں مگر گذشتہ 32 برس سے امریکہ میں مقیم ہیں اور یہاں کے ایک ایلیمینٹری سکول میں پڑھاتی ہیں۔

فرحانہ کے خیال میں: ’آزادی مارچ کا کچھ حاصل حصول نہیں ہے۔ اتنے سارے لوگ جمع ہیں اس کا کیا فائدہ ہو گا؟ مگر نظر یہ ہی آ رہا ہے کہ عمران خان نے جو وعدے کیے تھے وہ پورے نہیں کیے۔‘

فرحانہ کے خیال میں بھی پاکستان میں مہنگائی بہت زیادہ ہے۔ لوگوں کے مسائل بہت ہیں اس لیے لوگوں نے آزادی مارچ کا راستہ اپنایا ہے کیونکہ انہیں ملک میں کوئی بہتری ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔ ہم جتنے پاکستانی یہاں امریکہ میں رہتے ہیں، ریلی میں شرکت کے لیے گئے تھے۔ ہم نے ڈیم فنڈ اکٹھا کر کے دیا اور ہم اب بھی پاکستان کو سپورٹ کرنا چاہتے ہیں، کیونکہ ہمارا ملک ہے ہم بہتری چاہتے ہیں۔ مگر جو ہم سب چاہتے تھے وہ پورا نہیں ہوا۔ یہ نیا پاکستان نہیں ہے اور اب اگرآئندہ وہ [عمران خان] امریکہ پاکستانیوں کی سپورٹ مانگنے یہاں آئیں گے تو ہم سوچیں گے۔‘

عمران خان نے اقتدار سنبھالتے ہی باہر رہنے والے پاکستانیوں کے اوصاف گنوائے اور اان پر بھرپور بھروسہ کیا اور یہ درست ہے کہ عمران خان سمندر پار پاکستانیوں میں بہت مقبول ہیں۔ یہ امریکہ اور پاکستان کے لیے ایک واضح پیغام ہے۔ اور یہ بات بالکل حقیقت ہے کہ وہ بہت مشہور رہنما کے طور پر ابھر کے سامنے آئے ہیں۔

امریکی سینسس بیورو 2017 کے مطابق امریکہ میں آباد پاکستانیوں کی تعداد پانچ لاکھ 44 ہزار 640 ہے۔ یہاں کے رہنے والے امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں اپنی زندگی بسر کرتے ہیں۔ آزادیوں کی اس سر زمین پر آنے والے یہ پاکستانی ٹماٹر کی چٹنی اور پنیر والے پیزا کا مزہ لیتے ہوں، پرانی ٹیکسی چلاتے ہوں، یا وائٹ کالر جاب کرتے ہوں، پاکستان میں کبھی ٹیکس ادا کیا ہو یا نہیں مگر یہاں آکر باقاعدگی سے ٹیکس ادا کرتے ہیں اور زندگی کی تمام بنیادی سہولیات کا مزا اٹھاتے ہیں۔

دیار غیر میں بیٹھے ان پاکسانیوں کے سامنے جب پاکستان کی بات کی جائے تو یہ اپنے ہم وطنوں کی سوچ اور ہر اقدام کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ ارے بھائی یہ کیا جانیں کہ امریکہ سے ہزاروں میل دور ایک چھوٹے سے ملک [پاکستان] کے کسی چھوٹے سے شہر، قصبے اور گائوں میں شام کیسے آتی ہے؟ زبان سے نابلد، اخبار پڑھنے سے قاصر، پاکستانی سادہ ضرور ہیں اور ملکی مسائل پر الجھ سے گئے ہیں، انھیں سلیکٹڈ اور استعفی سے کیا لینا دینا؟ انھیں تو ہر روز دو وقت کی روٹی اور اسی دن پانی اور بجلی بھی مل جائے تو ان کے لیے کسی عید سے کم نہیں۔

ان حالات میں عمران خان جو امید کی کرن بن کرے آئے تھے وہ امید سوا سال میں ہی دم توڑ گئی۔ امیر امیر تر اور غریب غریب تر ہو گیا۔ ان حالت میں اگر ایک عام آدمی آنکھوں پر پٹیاں اور کانوں میں روئی ٹھونس لے تونہ وہ سنتا ہے، نہ دیکھتا ہے اور نہ سوچتاہے۔

ایسے میں کسی کی بھی مارچ ہو اور وہاں مفت کا کھانا مل جائے تو کوئی کیسے نعرہ لگانے آ جاتا ہے۔ یہ بات امریکہ میں برسوں سے مقیم پڑھے لکھے اور اعلیٰ عہدوں پر فائز پاکستانی شاید سمجھ نہیں پائیں گے۔

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ