بڑھتی ہوئی آبادی کا ٹائم بم

پاکستان کے لیے خود اپنی آبادی کی خوراک کی ضروریات کو پورا کرنے کی صلاحیت کم ہوتی جا رہی ہے۔ اس کے اثرات گندم کی قلت کے علاوہ پھلوں اور دالوں سمیت ضروری اشیائے خوردونوش کی درآمد کی شکل میں پہلے ہی سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔

60 اور  70  کی دہائی میں خاندانی منصوبہ بندی کے لاتعداد منصوبوں پر عمل کیا گیا جس کا مقصد ایک خاندان میں بچوں کی تعداد کو دو تک محدود رکھنا تھا۔ یہ کاوشیں کافی حد تک کامیاب رہیں لیکن فوجی آمر ضیاءالحق کی آمد کے بعد اس مہم پر کاری ضرب لگی (اے ایف پی)

پاکستان کی آبادی میں تقریبا ہر آٹھ سیکنڈ کے بعد ایک نئے فرد کا اضافہ ہوتا ہے اور خدشہ ہے کہ اگر اس رفتار میں کمی نہ آئی تو ہماری آبادی 2070 میں 35 کروڑ سے بھی تجاوز کر سکتی ہے۔ یہ بڑھتی ہوئی بےہنگم آبادی پاکستان کی سماجی و معاشی ترقی کے لیے کئی سنگین مسائل پیدا کرسکتی ہے۔

بڑھتی ہوئی آبادی مختلف سماجی برائیوں کو جنم دے رہی ہے جن میں کم عمری میں شادیاں، بچوں کی مزدوری اور استحصال، بے روزگاری، ناخواندگی میں اضافہ اور بڑھتی ہوئی انتہاپسندی شامل ہیں۔

پاکستان اس وقت دنیا میں چھٹا اور مسلمان ممالک کے درمیان آبادی کے لحاظ سے دوسرا بڑا ملک بن گیا ہے۔ جنوبی ایشیا میں آبادی  میں اضافہ کی شرح میں پاکستان سب سے آگے ہے جو کہ 2.4 فیصد کی خطرناک حد تک پہنچ گئی ہے۔ 1951 میں کی گئی پہلی مردم شماری کے مقابلے میں اب پاکستان کی آبادی چھ گنا بڑھ چکی ہے۔

موجودہ شرح افزائش کے پیش نظر پاکستان میں 2040 تک بارہ کروڑ ملازمتیں پیدا کرنا ہوں گی، 85000 مزید پرائمری سکول بنانے ہوں گے اور ایک کروڑ نوے لاکھ اضافی مکانات تعمیر کرنے ہوں گے۔ اس کے علاوہ صحت کے شعبے میں بھی بہت بڑی سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی۔

پاکستان کے مقابلے میں دیگر اسلامی ممالک نے افزائش آبادی کو قابو میں لانے میں نمایاں کامیابی حاصل کی ہے۔ ان میں ہمارے خطے میں ہی واقع بنگلہ دیش اور ایران خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ بنگلہ دیش کی آبادی 1971 میں تقریبا سات کروڑ 10 لاکھ تھی جبکہ پاکستان کی آبادی 1972 میں چھ کروڑ 50 لاکھ کے قریب تھی۔ آج بنگلہ دیش کی آبادی کی پاکستان کی 20 کروڑ 78 لاکھ کے مقابلے میں 16 کروڑ 74 لاکھ ہے اور سالانہ افزائش کی شرح ہم سے کئی درجہ کم ایک فیصد ہے۔ ایران میں بھی آبادی میں اضافے کی شرح میں پچھلے 30 سالوں میں کمی کی رفتار انتہائی تیز رہی ہے۔ 1980 میں یہ شرح فی خاتون 6.5 فیصد بچوں کی پیدائش تھی جو 2017 میں حیران کن 1.6 فیصد پر آ گئی ہے۔

پاکستان میں بڑھتی ہوئی بے ہنگم اور بےقابو آبادی ملکی وسائل بالخصوص محدود قدرتی وسائل پر سخت دباؤ ڈال رہی ہے۔ یہ صورت حال مستقبل قریب میں بحران کی شکل اختیار کر سکتی ہے۔ اس سلسلے میں پانی کے ذخائر پر بڑھتا ہوا بوجھ ملک کو جلد ایک پریشان کن صورت حال سے دوچار کر سکتا ہے۔ 1981 تک ہمارے ہاں پانی وافر مقدار میں مہیا تھا اور فی کس دستیابی 2.123 مکعب میٹر تھی۔ 2017 کی مردم شماری سے ظاہر ہوتا ہے کہ اب پانی کی فی کس دستیابی انتہائی کمی کا شکار ہو کر 861 مکعب میٹر فی کس کی سطح پر آ گئی ہے۔ اگر اس بڑھتے ہوئے سیلاب کے آگے بند نہ باندھا گیا تو بڑھتی ہوئی آبادی کے ساتھ پانی کی فی کس دستیابی میں کمی کا یہ مسئلہ عنقریب مزید سنگین صورت اختیار کر سکتا ہے۔

پانی ہی وہ واحد قدرتی عطیہ نہیں جو اس وقت سنگین خطرے سے دوچار ہے۔ اراضی اور اس کے استعمال پر بڑھتی ہوئی آبادی کے اثرات بھی توجہ طلب ہیں۔ زرعی اراضی کی دستیابی جو کہ 60 اور 70 کی دہائی میں کثرت سے تھی اس میں بھی خطرناک حد تک کمی آئی ہے۔ اس وجہ سے لوگ زراعت کا کام چھوڑ کر روزگار کی تلاش میں شہروں کا رخ کر رہے ہیں۔ شہری پھیلاؤ میں اضافہ زرعی اراضی کو مزید دباؤ کا شکار بنا رہا ہے۔ زرعی اراضی کا غیر زرعی مقاصد کے لیے استعمال تیزی سے پھیلتا جا رہا ہے جو کہ ملک کو ایک اور بڑے بحران کی طرف لے جا رہا ہے۔ 

پاکستان کے لیے خود اپنی آبادی کی خوراک کی ضروریات کو پورا کرنے کی صلاحیت کم ہوتی جا رہی ہے۔ اس کے اثرات گندم کی قلت کے علاوہ پھلوں اور دالوں سمیت ضروری اشیائے خوردونوش کی درآمد کی شکل میں پہلے ہی سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔ زمین کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں کیونکہ زرعی اراضی کو غیر زرعی مقاصد بالخصوص رئیل اسٹیٹ کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے اور زیر کاشت زمینوں کو رہائشی سکیموں میں تبدیل کیا جا رہا ہے۔ اس رجحان سے ملک کو ایک مستقل زرعی بحران سے دوچار ہونے کا خطرہ بدرجہ اتم موجود ہے۔

یہ بات تو طے شدہ ہے کہ اگر ایک بار اراضی کے استعمال میں تبدیلی آجائے تو اسے اصل مقصد کی طرف واپس لانا تقریبا ناممکن ہوتا ہے۔ ایک تحقیق کے مطابق پاکستان میں بےدریغ شہری پھیلاؤ 77,000 ہیکٹر اراضی کو ہڑپ کر چکا ہے جس میں زیادہ تر زرخیز زرعی اراضی شامل تھی۔

پاکستان میں گذشتہ 60 سالوں کے دوران کل زیر کاشت اراضی میں صرف 40 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ آبادی میں پانچ گناہ اضافہ ہوا ہے۔ زرعی اراضی میں تشویشناک کمی کے علاوہ بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے جنگلات میں بھی وسیع پیمانے پر کمی دیکھنے میں آئی ہے جو ہمارے ماحولیات پر شدید منفی اثر ڈال رہی ہے۔ اس ماحولیاتی تبدیلی سے قدرتی آفات میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ مری کے راستے جاتے ہوئے یہ تبدیلی آسانی سے دیکھی جا سکتی ہے جہاں درخت آہستہ آہستہ غائب ہو رہے ہیں اور ان کی جگہ نئی بے ہنگم آبادیاں دیکھنے میں آرہی ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

آبادی کا بڑھتا ہوا پھیلاؤ پاکستان کی معاشی سلامتی کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے اس لیے ضروری ہے کہ اس مسئلہ کے حل کی طرف جلد از جلد اور سنجیدہ توجہ دی جائے۔ ساٹھ اور ستر کی دہائی میں خاندانی منصوبہ بندی پر کافی توجہ دی گئی اور عوام میں آگہی پھیلانے کے لاتعداد منصوبوں پر عمل کیا گیا جس میں اخبارات، ریڈیو اور ٹی وی جیسے ذرائع ابلاغ کو موثر طریقے سے استعمال کیا گیا ۔اس مہم کا مقصد ایک خاندان میں بچوں کی تعداد کو دو تک محدود رکھنے کے فوائد سے عوام کو آگاہ کرنا تھا۔ یہ اور اس نوعیت کی دیگر کاوشیں کافی حد تک کامیاب رہیں۔ لیکن آمر ضیاءالحق کی آمد کے بعد اس مہم پر کاری ضرب لگی۔ مذہبی حلقوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اس آگہی مہم کو غیراعلانیہ طور پر بتدریج ختم کردیا گیا۔ اس غلطی کا شاخسانہ اب ہم آبادی کے بڑھتے ہوئے طوفان کی صورت میں دیکھ رہے ہیں۔

لیکن ابھی بھی بہت دیر نہیں ہوئی ہے اور اب بھی بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے ہمارے محدود قدرتی وسائل کی مکمل نابودی کے خطرات پر قابو پانے کے لیے بہت کچھ کیا جا سکتا ہے بشرطیکہ کہ ہماری قیادت اس پر سنجیدگی سے توجہ دے۔ آبادی کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے ہم بنگلہ دیش اور ایران کی کامیاب پالیسیوں سے استفادہ حاصل کر سکتے ہیں۔

آزادی کے فورا بعد بنگلہ دیش نے خاندانی منصوبہ بندی کے ایک کامیاب پروگرام کا آغاز کیا جس کا بنیادی پہلو یہ تھا کہ منصوبہ بندی کی خدمات گھر کی دہلیز پر فراہم کی جائیں اور اور اس کے لیے تربیت یافتہ نوجوان خواتین کو بھرتی کیا گیا۔ مذہبی راہنماؤں کی مدد بھی لی گئی۔ اس کے ساتھ جگہ جگہ خاندانی منصوبہ بندی کے دیہی کلینک قائم کئے گئے اور رابطہ و رسائی کے مختلف طریقوں سے بھرپور آگہی پیدا کی گئی۔ اسی طرح ایران میں مذہبی اداروں اور معروف علما کو ساتھ ملایا گیا اور منصوبہ بندی کے طریقوں تک مفت اور آسان رسائی بڑھائی گئی۔ نئے شادی شدہ جوڑوں کو مشاورت فراہم کی گئی اور ذرائع ابلاغ کے ذریعے منصوبہ بندی کے بارے میں آگہی پیدا کی گئی۔ ان مستند اور کامیاب طریقوں پر عمل کرتے ہوئے پاکستان میں بھی اس چیلنج کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے اور اس مہم میں جدت پیدا کرکے اسے زیادہ قابل قبول بنایا جا سکتا ہے۔

اس پروگرام کو کامیاب بنانے اور اس کی زیادہ سے زیادہ قبولیت کے لیے ہر خاندان کی مناسب مالی امداد کا وعدہ بھی ایک موثر کردار ادا کرسکتا ہے۔ اس خوفناک صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں خطیر وسائل مہیا کرنے ہوں گے اور اگر کچھ اہم اداروں کے اخراجات کم بھی کرنے پڑے تو اس سے گریز نہ کیا جائے۔ یہ ایک ایسی سرمایہ کاری ہے جو ملک کی ترقی، سلامتی اور آئندہ نسلوں کی خوشحالی کے لیے ازحد ضروری ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ