ہانگ کانگ مظاہروں کی حمایت: امریکہ کو سنگین ’نتائج‘ کی دھمکی

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غیر متوقع طور پر دو ایسے قوانین پر دستخط کر دیے ہیں جو ہانگ کانگ میں مظاہروں کی تحریک کی حمایت پر مبنی ہیں۔ جس کے بعد چین نے اس پر شدید رد عمل کا اظہار کیا ہے۔

ہانگ کانگ میں پولیس آخر کار ہانگ کانگ پولی ٹیکنیک یونیورسٹی کے کیمپس میں 11 دن کے پرتشدد محاصرے کے بعد داخل ہو چکی ہے (اے ایف پی)

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غیر متوقع طور پر دو ایسے قوانین پر دستخط کر دیے ہیں جو ہانگ کانگ میں مظاہروں کی تحریک کی حمایت پر مبنی ہیں۔ جس کے بعد چین نے اس پر شدید رد عمل کا اظہار کیا ہے۔

یہ قوانین امریکی کانگریس اور سینیٹ دونوں نے متفقہ طور پر گذشتہ ہفتے پاس کیے تھے لیکن صدر ماضی میں اس حوالے سے ’جو میز پر آئے گا اسے غور سے دیکھنے‘ کا کہہ چکے ہیں۔

اب جب یہ بل قوانین بن چکے ہیں تو امریکہ پر لازم ہو گا وہ سالانہ بنیادوں پر ہانگ کانگ کی چین سے خود مختار حیثیت کا جائزہ لے۔

اگر بیجنگ نے شہر کی آزادانہ حیثیت کو بدلا تو ہانگ کانگ امریکہ کے خصوصی تجارتی پارٹنر کی حیثیت سے محروم ہو جائے گا جس کے بعد وہ رعایتی ٹیرف سے فائدہ نہیں اٹھا سکے گا۔ جو عملی طور پر اس شہر کی عالمی تجارتی مرکز کی حیثیت کو خطرے میں ڈال دے گا۔

ان قوانین کے تحت امریکہ پر ہانگ کانگ کو ربڑ کی گولیاں، آنسو گیس اور ہجوم کو قابو کرنے کے باقی سازو سامان پر پابندی ہو گی۔ ایسا ان الزامات کے بعد کیا گیا ہے جن میں کہا گیا تھا کہ ہانگ کانگ کی پولیس نے شہر میں چھ ماہ سے جاری احتجاجی تحریک کو روکنے کے لیے ان طریقوں کا بے جا استعمال کیا ہے۔

ان قوانین کے تحت چین اور ہانگ کانگ میں موجود ان افراد پر بھی پابندیاں عائد کی جا سکیں گی جو کسی بھی طرح سے جمہوریت کے لیے تحریک چلانے والے افراد کے ساتھ ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث پائے جائیں گے۔

صدر ٹرمپ کا کہنا تھا کہ انہوں نے ان قوانین پر بدھ کو دیر سے دستخط کیے، ایسا ’چینی صدر شی جنگ پنگ اور ہانگ کانگ کے عوام کو عزت دینے کے لیے کیا گیا۔ وہ پرامید ہیں کہ چین اور ہانگ کانگ کے رہنما اپنے اختلافات کو ایک طرف رکھ کر امن اور خوشحالی کے طویل المدتی راستے پر چلیں گے۔‘

چین نے اس عمل کی مذمت کرتے ہوئے امریکہ کو غیر واضح ’نتائج‘ کا سامنا کرنے کی دھمکی دی ہے۔ بیجنگ نے جمعرات کی دوپہر امریکی سفیر کو طلب کر کے مطالبہ کیا کہ امریکی حکومت نئے قوانین کا نفاذ نہ کرے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

چین کی وزارت خارجہ نے ایک بیان میں ان قوانین کو ’چین کے اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت قرار دیا ہے جن کے مقاصد خطرناک، تعصب سے بھرپور اور متکبرانہ ہیں۔‘

بیان میں کہا گیا کہ ’امریکہ نے حقائق کو نظر انداز کیا ہے۔ سیاہ کو سفید میں بدل دیا ہے اور پرتشدد مجرموں جو جلاؤ گھیراؤ، معصوم شہریوں کو نقصان پہنچانے اور امن عامہ کو پیروں تلے روندنے میں ملوث تھے کی حوصلہ افزائی کی ہے۔‘

ہانگ کانگ حکومت کا کہنا ہے کہ ان قوانین سے امریکہ کے ساتھ تعلقات کو نقصان ہو سکتا ہے جب کہ مظاہرین کو بھی غلط پیغام بھیجا جا رہا ہے۔ کیری لام انتظامیہ نے ان نئے قوانین پر ’مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے ان کی بھرپور مخالفت کی ہے۔‘

جبکہ ہانگ کانگ میں پولیس آخر کار ہانگ کانگ پولی ٹیکنیک یونیورسٹی کے کیمپس میں 11 دن کے پرتشدد محاصرے کے بعد داخل ہو چکی ہے۔ اس محاصرے کے دوران پولیس اہلکاروں اور مظاہرین کے ایک سخت گیر گروہ کے درمیان گرفتاری سے بچنے کے لیے کشیدگی جاری رہی۔

یونیورسٹی انتظامیہ کے اس بیان کے بعد کہ ان کے خیال میں یونیورسٹی میں کوئی موجود نہیں ہے، پولیس نے یونیورسٹی کو کلیئر کرنا شروع کر دیا۔ دو روز کے بعد کلیئرنس کا یہ عمل بدھ کو ختم ہوا۔

پولیس کی کارروائی سے چند گھنٹے قبل ایک نقاب پوش احتجاجی باہر آیا اور صحافیوں کو بتایا کہ ابھی بھی 20 کے قریب افراد اندر پھنسے ہوئے ہیں۔ وہ یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے کیے جانے والے سرچ آپریشن میں محفوظ رہے تھے۔ احتجاجی کا کہنا تھا کہ ’وہ پولیس پر کبھی بھروسہ نہیں کر سکتے۔‘

ایک اعلیٰ پولیس عہدیدار چویات منگ کا کہنا ہے کہ ’کارروائی کا مقصد کسی کو گرفتار کرنا نہیں بلکہ پٹرول بموں کے ڈھیر اور باقی خطرناک چیزوں کو وہاں سے ہٹانا تھا جن کی اطلاع یونیورسٹی انتظامیہ نے دی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ یونیورسٹی کو ہونے والے ’بدترین‘ نقصان کے ثبوت اکٹھے کرنا بھی تھا۔‘

ان کا کہنا تھا کہ وہاں موجود پائے جانے والے کسی بھی احتجاجی کو طبی مدد لینے کے لیے حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے اور انہیں گرفتار نہیں کیا جا رہا۔ گو کہ ان افراد کی تفصیلات حاصل کی جائیں گی اور مستقبل میں وہ قانونی کارروائی کا سامنا کر سکتے ہیں۔

پولی ٹیکنیک یونیورسٹی میں ہونے والی جھڑپوں کے دوران گرفتاریوں کی تعداد میں یک لخت اضافہ ہوا اور ابھی تک پانچ ہزار سے زائد مظاہرین کو گرفتار کیا جا چکا ہے۔ ہانگ کانگ میں مظاہرے اپریل سے جاری ہیں جس کی وجہ مشتبہ ملزمان کو چین کے حوالے کرنے کا ایک قانون تھا۔

جون میں ان مظاہروں میں شدت آئی اور یہ ہانگ کانگ کے 1997 میں برطانیہ کی جانب سے چین کو واپس کیے جانے کے بعد بیجنگ حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ثابت ہوئے ہیں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا