آسٹریلیا میں پاکستان کی خراب پرفارمنس پر وسیم اکرم کا غصہ بے جا ہے؟

سابق لیجنڈ بولر نے پاکستانی کھلاڑیوں کی مسلسل خراب کارکردگی کو ڈومیسٹک سسٹم کی خرابی قرار دیا ہے لیکن کیا وہ خود ایڈیلیڈ کے کمنٹری باکس سے نیچے اتر کر اسے ٹھیک کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں؟

ایسے کوچ، خواہ وہ ماضی کے جتنے بڑے کھلاڑی رہے ہوں، بیکار ہیں جو کھلاڑیوں کی تکنیک صحیح نہ کرسکیں: وسیم اکرم (اے ایف پی)

آسٹریلیا کے خلاف ٹیسٹ سیریز کے دوران فوکس ٹی وی پر کمنٹری کرتے ہوئے پاکستان کے سابق مایہ ناز فاسٹ بولر اور وزیر اعظم عمران خان کے قریبی دوست وسیم اکرم پاکستان کے کرکٹ سسٹم پر پھٹ پڑے اور بورڈ کو کھری کھری سنا دیں۔  

انھوں نے دورہِ آسٹریلیا میں پاکستانی بلے بازوں اور بولروں کی مسلسل خراب کارکردگی کو سسٹم کی خرابی قرار دیا ہے۔

وسیم نے ملک میں کوچنگ اکیڈمیز اور موجودہ کوچز کے کردار پر سخت تنقید کرتے ہوئے کہا ان کی کوچنگ کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ کھلاڑی بنیادی غلطیاں کررہے ہیں۔ ’ایسے کوچ، خواہ وہ ماضی کے جتنے بڑے کھلاڑی رہے ہوں، بیکار ہیں جو کھلاڑیوں کی تکنیک صحیح نہ کرسکیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ہر کوئی پاکستانی ٹیم کی کارکردگی کو ٹیسٹ یا انٹرنیشنل میچوں میں پرکھتا ہے لیکن کیا کوئی کبھی فرسٹ کلاس میچوں کو بھی دیکھتا ہے جہاں سے یہ کرکٹر قومی ٹیم میں آتے ہیں۔ ’ان فرسٹ کلاس میچوں کو کسی بھی سطح پر نہ عوامی پذیرائی ملتی ہے اور نہ بورڈ کی سرپرستی۔‘

سابق فاسٹ بولر کی فرسٹریشن ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب وہ خود کرکٹ کمیٹی میں شامل ہیں اور ان کے دوست عمران خان اس ملک کے وزیر اعظم اور کرکٹ بورڈ کے سرپرست ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خود عمران خان اپنی سیاسی کارکردگی میں وسیم اکرم کی مثال دیتے رہتے ہیں لیکن وسیم اکرم کی بدقسمتی کہ ’نااہل‘ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کو وسیم اکرم پلس کا خطاب خود عمران خان نے دیا ہوا ہے۔

لیجنڈ بولر کی تنقید کا پی سی بی پر کتنا اثر ہو گا، یہ سوچنا ہی فضول ہے۔

پاکستان کی فرسٹ کلاس کرکٹ کا معیار اس قدر زبوں حالی کا شکار ہے کہ ڈومیسٹک کرکٹ میں رنزکے پہاڑ کھڑے کرنے  والے بلے باز جب انٹرنیشنل کرکٹ میں آتے ہیں تو سوکھے پتوں کی طرح اڑجاتے ہیں۔

کراچی اور لاہور کے علاوہ جن سینٹرز پر فرسٹ کلاس میچ کھیلے جاتے ہیں ان میں ڈریسنگ روم کے نام پر تاریک بدبو دار کمرے اور غلیظ ٹوائلٹ ہوتے ہیں، جن میں ان کرکٹرز کو پانچ دن گزارنے ہوتے ہیں۔

ان فرسٹ کلاس میچوں میں سہولیات کا عالم یہ ہوتا ہے کہ رکشوں میں بریانی کی دیگیں پہنچائی جاتی ہیں اور منرل واٹر کے نام پر ڈرم میں گدلا پانی فراہم کیا جاتا ہے۔

گراؤنڈز کا یہ حال ہے کہ لوگ ان میں جانور باندھتے ہیں یا پھر شادیوں کے ٹینٹ، اور اکثر کھلاڑیوں کے ہاتھ فیلڈنگ کرتے ہوئے بال کی جگہ کسی سوکھی ہوئی ہڈی کا ٹکڑا آ جاتا ہے۔

کراچی جیسے بڑے شہر کے نیشنل سٹیڈیم میں بھی گھاس کا برا حال ہے۔ ڈریسنگ روم میں چوہوں کی فوج ظفر موج گشت کرتی رہتی ہے اور سٹیڈیم کے باہر سے ایسا لگتا ہے کہ کوئی ہزار سال پرانی نامکمل عمارت ہے جس کا وجود بدنمائی کا شاہکار ہے۔

سٹیڈیم میں نئی تعمیر سے اندرونی شکل بہتر کرنے کی کوشش کی گئی ہے لیکن آؤٹ فیلڈ میں اب بھی دھول اڑتی رہتی ہے۔

ایسے زبوں حال خستہ کرکٹ گراؤنڈز میں جب کھلاڑی بنیں گے تو ان کا حشر وہی ہو گا جو آج قوم ایڈیلیڈ میں دیکھ رہی ہے۔

اس صورتحال میں کیا وسیم اکرم ایڈیلیڈ کے کمنٹری باکس سے نیچے اتر کر پاکستان کے فرسٹ کلاس کرکٹ سسٹم کی بہتری کے لیے بورڈ کو فعال کریں گے؟

ویسے وسیم اکرم کو یہ ضرب المثل تو یاد ہو گی کہ روم جل رہا تھا اور نیرو سکھ کی بانسری بجا رہا تھا۔ 

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ