اس شرمناک ہار کا ذمہ دار کون؟

مجھے کرکٹ کے پاکستانی شائقین سے بھی شدید ہمدردی ہے جنہیں اپنی ٹیم کا بغیر مقابلہ کیے وائٹ واش دیکھنا پڑا۔

فاسٹ بولر تو ایک طرف رہے، پاکستانی بلے باز سپنر نیتھن لائن کو بھی نہیں کھیل سکے (اے ایف پی)

اسی سیریز میں ہی نہیں بلکہ جب بھی پاکستانی ٹیم آسٹریلیا گئی ہے، اسے تقریباً ہر بار عبرت ناک شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

لیکن آخری دو دورے تو پاکستانی ٹیم اور اس کے مداحوں کے لیے ذلت آمیز رہے۔

اس بار پاکستانی کمنٹیٹر اس ٹیم کا انتخاب کرنے والوں اور کوچز کی نا اہلی پر پردہ ڈالنے کے لیے عجیب و غریب منطق پیش کر رہے ہیں، شاید وہ پرانی دوستی کا حق ادا کرنے کے لیے۔

پاکستانی ٹیم نے آسٹریلیا کی سرزمین پر 1995 کے بعد کبھی فتح کا مزہ نہیں چکھا۔

اگر 1995 کی فتح کا جائزہ لیں تو وہ بنیادی طور پر اس کا سہرا لیگ سپنر مشتاق، وسیم اکرم کی بولنگ اور بیٹنگ میں اعجاز احمد کے سر جاتا ہے۔ اعجاز احمد باٹم ہینڈڈ بلے باز تھے۔ انہوں نے کریز کے باکس کو آسٹریلیا کی تیز بولنگ کے خلاف بہت مہارت سے استعمال کیا جو آسٹریلیا کے میدانوں میں بلے بازوں کی یقینی کامیابی کا بڑا سبب تصور کی جاتی ہے۔

90 کی دہائی میں ملنے والی فتح کے بعد پاکستان کئی بار جیت کے قریب پہنچا لیکن کبھی کامیابی کا جام ہونٹوں تک نہ پہنچ سکا۔

پاکستانی ٹیم کے لیے سب سے بڑی اذیت باؤنس سے ہوتی ہے جو پاکستانی ٹیموں کا امن تباہ کرتا رہا ہے۔ دوسری طرف پاکستانی بولر آسٹریلیا کی پیچز میں ملنے والے باؤنس سے فائدہ نہ اٹھا سکے۔ باؤنس پاکستان کا دیرینہ دشمن ثابت ہوا ہے اور اب تک ہم اس مرض کا علاج تلاش نہیں کر سکے۔ 

اب ان تمام عناصر کا قریب سے جائزہ لیتے ہیں جو پاکستان کرکٹ کے اندوہناک انجام کا باعث بنے۔ ہم نے کتنی بار تجزیہ نگاروں کی زبان سے یہ سنا ہے کہ ٹیسٹ میچ جیتنے کے لیے ٹیم کا 20 وکٹیں حاصل کرنے کا اہل ہونا ضروری ہے۔ یہ صلاحیت ٹیسٹ میچ جیتنے کی اولین اور سب سے ضروری شرط ہے۔ اگر پاکستان نے میچ جیتنا تھے تو یہ ضروری تھا کہ تجربہ کار بولروں کو ٹیم میں شامل کرتے لیکن مصباح الحق نے چند ناتجربہ کار ٹین ایجرز کو ٹیم میں شامل کر کے سب کو حیران کر دیا۔ 

یہ درست ہے کہ یہ بولر تیز رفتار ہیں مگر رفتارکے ساتھ تجربہ اور گیند کو درست جگہ پر پھینکنا زیادہ ضروری ہوتا ہے۔ موسیٰ اور نسیم اس مہارت سے بالکل بے بہرہ نظر آئے لیکن اس میں ان کا کوئی قصور نہیں کی کیونکہ وہ کبھی اس سے پہلے آسٹریلیا میں کھیلے ہی نہیں۔ ان دونوں جو ٹیسٹ میچ کا تجربہ ہی نہیں۔ اس کے ذمہ دار وہ لوگ ہیں جنہوں نے ان ناتجربہ کار لڑکوں کو محض اس توقع پر سلیکٹ کر لیا تھا کہ اگر یہ نوجوان غیر متوقع طور پر اپنی پیس کی بنیاد پر شاندار کارکردگی دکھا دیں تو ان کو منتخب کرنے کا کریڈٹ مینیجمنٹ لے جائے گی۔ تاہم جس اُمید پر انہیں ٹیم میں رکھا گیا تھا وہ پوری نہ ہوئی۔

یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے کہ وقار یونس اور مصباح الحق کس خیالی دنیا میں رہتے ہیں اور انہوں نے کس آس پر 16 اور 18 سالہ لڑکوں کو منتخب کر کے بھیج دیا جو نہ صرف ان نوجوانوں کے ساتھ زیادتی تھی بلکہ یہ سوچنا بھی حماقت تھی کہ وہ کوئی کمال دکھا دیں گے۔ لگتا ہے کہ اس ٹیم کے انتخاب کے وقت تھنک ٹینک لمبی چھٹی پر تھا۔

ڈیوڈ وارنر، سٹیون سمتھ اور مارنس لبوشین جیسے کھلاڑیوں کو بولنگ کرانے کے لیے ان بچوں کو منتخب بہت بڑی حماقت تھی۔ اس جے علاوہ اوور ریٹڈ ملٹری میڈیا عباس کو منتخب کرنا کوئی اعلیٰ فیصلہ نہ تھا۔

اس سے پہلے کہ آپ مجھ سے اس تنقید کی وجوہات پوچھیں تو میں یہ کہنا چاہتی ہوں کی عباس انگلینڈ اور متحدہ عرب امارات جیسی ان جگہوں کے لیے موزوں ہے جہاں ریورس اور روایتی سونگ ہوتی ہے۔ وہ 130 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے بولنگ کرتے ہیں اس لیے وہ آسٹریلیا کے وکٹوں کے لیے موزوں ثابت نہیں ہوئے کیونکہ ان کے پاس پیس نہیں ہے۔

اس کے علاوہ ایک اور پیسر عمران خان ہیں جنہیں برزبین میں کھیلایا گیا تھا۔ اس شریف آدمی کو مصباح الحق نے، جو پاکستان کے اپنے ڈاکٹر فرینکسٹائن ہیں، راکھ سے دوبارہ زندہ کر لیا۔عمران خان کو برسوں کی ’ہائبرنیشن‘ کے بعد دوبارہ نکال لیا گیا ہے۔

اس غریب آدمی کو کئی سال پہلے پانچ وکٹیں لینے کے بعد نکال دیا گیا تھا اور ہمیں ان کی کوئی خبر نہیں تھی اب انہیں اچانک حیران کن طریقے سے سامنے لایا گیا ہے۔ اس سے لگتا ہے کہ یہ انتخاب میرٹ کی بجائے رحم کی بنیاد پر کیا گیا۔ پاکستان میں کھلاڑیوں کے ساتھ یہی ہوتا ہے کہ ان کے بہترین دور میں انہیں باہر بٹھا دیتے ہیں اور جب وہ ختم ہو جائیں تو انہیں واپس شامل کر لیتے ہیں۔

پیس کے شعبے میں واحد معقول انتخاب شاہین آفریدی کا تھا باقی کسی کے انتخاب کا جواز نہیں بنتا تھا۔ کیا آسٹریلیا جیسی جگہ پر مخالف ٹیم کے لیے خطرہ بن سکنے والے صرف ایک پیسر کے ساتھ جیتنا ممکن تھا؟ میرا جواب آپ جانتے ہیں۔ افسوسناک صورت حال ہے اور میں سمجھتی ہوں کہ یاسر کا انتخاب بھی بلا سوچے سمجھے کیا گیا، وہ آسٹریلیا میں کبھی کامیاب نہیں رہے۔

ان کی جگہ لمبے قد کے آف سپنر بلال آصف کو شامل کیا جاتا تو زیادہ اچھا تھا وہ نیتھن لائن کی طرح ٹائٹ گیند کر سکتے تھے جس کے نتیجے میں وہ شاید اہم وکٹیں حاصل کر لیتے اور انہیں یقیناً کم سکور پڑتا۔ پاکستان کے لیے بہترین صورت حال وہ ہوتی جس میں عامر یامین یا فہیم اشرف کی طرح کے آل راؤنڈر کو شامل کیا جاتا۔ پاکستان کو پانچ بولروں کے ساتھ کھیلنا چاہیے تھا لیکن مصباح الحق اور اظہر نے چار بولروں کے اٹیک پر اصرار کیا جو منفی حکمت عملی ثابت ہوئی جس کے نتیجے میں آسٹریلیا میں شرمناک نقصان اٹھانا پڑی۔ 

اگر پاکستانی بیٹنگ کی بات کریں تو وہ ہرگز کسی بھی صورت میں معیاری نہ تھی۔ میں فواد عالم کا انتخاب کرتی کیونکہ وہ باہمت بلے باز ہیں۔ ہاں یہ بات الگ ہے کہ پاکستانی سلیکٹروں نے انہیں کھلونا بنایا ہوا ہے۔ پاکستانی بلےبازوں کی تکنیک آسٹریلیا کے تیز بولروں کے سامنے مکمل طور پر ایکسپوز ہو گئی، چاہے وہ اظہر ہوں جو بیٹ کے فیس کو جلدی بند کر لیتے ہیں اور اس کی وجہ سے لیڈنگ ایج کی وجہ سے آؤٹ ہوتے ہیں۔

یا شان مسعود ہوں جو راؤنڈ دی وکٹ بننے والے زاویے سے نہیں نمٹ سکتے اور سیٹ ہو کر اپنی وکٹ گنواتے ہیں۔ چاہے حارث سہیل جو میری نظر میں اچھے کھلاڑی ہیں اس دورے میں باؤنس کو اچھی طرح نہ کھیل سکے اور ناکام رہے۔ وہ یہ نہ سمجھ سکے کہ آسٹریلیا میں بال کو ہمیشہ لیٹ کھیلنا پڑتا ہے۔ دو کھلاڑی جو قدرے بہتر کھیلے وہ بابر اعظم اور رضوان ہیں۔ ان دونوں نے پیس اور باؤنس کو بہترین انداز میں کھیلا۔ اگر یہ دونوں بھی نہ کھیلتے تو مزید شرمندگی کا سامنا کرنا پڑتا۔ اس پوری سیریز میں یاسر ٹیل انڈر ہوتے ہوئے سکور کر رہے تھے مگر ان کا بنیادی کام وکٹیں لینا تھا جس میں وہ ناکام رہے۔

پاکستان کے لیے یہ اچھا شگون ہے کہ لگتا ہے کہ یاسر شاہ نے اپنی بیٹنگ پر کافی محنت کی ہے۔ تاہم انہیں بولنگ میں بہت زیادہ سکور پڑا بلکہ ان کی دھلائی ہوئی جو پاکستان کے اہم ترین سپنر کی کارکردگی کے طور پر انتہائی مایوس کن ہے۔ 

یہ سب کچھ غیر پیشہ وارانہ کوچنگ کے عملہ، ڈومیسٹک کے لیے بنائی گئیں پچز اور بلاشبہ احمقانہ انتخاب کے باعث ہوا۔ میں کہوں گی کہ غیر ملکی کوچز ہونا چاہئیں۔ بعض لوگ دلیل دیں گے کہ ماضی میں بھی غیر ملکی کوچز کے ہوتے ہوئے ٹیم کی کارکردگی اچھی نہ تھی، اس کے جواب میں میں صرف اتنا کہوں گی کہ 2016 میں جب پاکستان ٹیسٹ میں پہلے نمبر پر تھا تو اس وقت غیرملکی ہی پاکستان کا کوچ تھا۔

ہمیں مصباح کو سلیکٹر یا ایڈوائزر کے طور پر برقرار رکھنا چاہیے۔ ڈین جونز یا اینڈی فلاور کی طرح کے کوچ لانا چاہییں۔ آج نہیں تو کل یقیناً ہمیں بولنگ کوچ بھی تبدیل کرنا پڑے گا۔ میں ذاتی طور پر وسیم اکرم اور وقار یونس کی مداح ہوں مگر انہیں کوچ بنانے کی مخالف ہوں۔ کیونکہ ضروری نہیں کہ ٹاپ پلیئر اچھے کوچ بھی ثابت ہوں۔

مجھے لگتا ہے کہ اظہر کوچھ ماہ کا وقت دیا جانا چاہیے اگر وہ نہیں سیکھتے یا بہتر نہیں ہوتے تو پھر دوسرے متبادل پر غور کرنا ہو گا۔ ان کی کپتانی میں جدت اور فہم کی فقدان پایا گیا اور لگتا ہے کہ ٹیم کے انتخاب میں ان کا کوئی اختیار نہیں تھا بلکہ وہ ٹیم انتظامیہ کے جی حضور کرنے والے’یس مین‘ ہیں۔

اگر اظہر اپنا اثر قائم کرنا چاہتے ہیں تو انہیں مضبوط لیڈر کے طور پر سامنا آنا ہو گا۔ مصباح الحق کو یہ سمجھنا ہو گا کہ وہ سپر مین نہیں ہو سکتے اس لیے انہیں کئی کئی رول نہیں دیے جانا چاہئیں تھے ۔ انہیں ملٹی ٹاسکنگ کی بجائے سنگل رول کا انتخاب کرنا پڑے گا۔ میرا یہ سوال ہے کہ کیا تمام انڈے ایک ہی ٹوکری میں رکھنے چاہییں۔ مجھے کرکٹ کے پاکستانی شائقین سے بھی شدید ہمدردی ہے جنہیں اپنی ٹیم کی دو صفر سے شکست دیکھنا پڑی۔ 

اس ساری صورت حال میں افسوسناک پہلو یہ ہے کہ حالیہ سیریز میں پاکستان کی آسٹریلیا جانے والی ماضی کی ٹیموں کے برعکس مقابلے کی فضا بھی دیکھنے میں نہیں آئی۔ بلا شبہ یہ اس دہائی کی سب سے بدترین شکست تھی۔ یہ شائقین کے لیے ناقابل برداشت تھا اور انہوں نے خود سے بدلہ ایسے لیا کہ وہ کھیل کے میدان میں بڑی تعداد میں میچ دیکھنے ہی نہیں آئے۔

ان میچوں کے دوران کوئی پاکستانی پرچم نظر نہیں آیا تو یہ پاکستانی کھیل کی انتظامیہ کے لیے مایوس کن صورت حال ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ