کشمیری سیب تشدد کی زد میں

کشمیری زمینوں، جائیداد اور لڑکیوں پر اب بیشتر لوگوں کی للچائی ہوئی نظریں مرکوز ہیں۔

سری نگر کے جنوب میں پلواما کے علاقے میں اس برس اگست میں ایک بھارتی فوجی سیب کے باغ میں پوزیشن سنبھالے ہوئے (اے ایف پی)

وہ کئی ہفتوں سے گھر کی دہلیز پر بیٹھ کر سیبوں کی ٹوکری لے کر ہر راہگیر کو تکتی رہتی ہے حالانکہ کشمیر میں اس طرح سیب بیچنے کی کوئی روایت نہیں۔

گاؤں میں تقریباً ہر خاندان کے پاس اپنے باغات ہیں جن میں اس برس کثرت سے سیبوں کی فصل ہوئی لیکن بدقسمتی سے یہ فصل یا تو درختوں پر ہی سڑ گئی یا اسے پیٹیوں میں بند کرنے کی مہلت نہیں ملی۔ بھارتی حکومت کی مہربانی کہ جس نے اجتماعی سزا کے طور پر پانچ اگست کے خصوصی حیثیت ختم کرنے کے فیصلے کے ساتھ ہی کرفیو نافذ کر دیا جس سے کشمیریوں کی زندگی اور سیبوں کی فصل تباہ ہوگئی۔ سیب درختوں پر لمبے عرصے تک رہنے سے سڑ گئے۔

سیاحت کے بعد باغبانی دوسری بڑی صنعت ہے جو کشمیر کی اقتصادی ترقی کی ضامن رہی ہے۔ بی جے پی کی حکومت نے جان بوجھ کر اسے ناکارہ بنایا تاکہ کشمیری قوم کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جائے۔ ان میں سارہ آپا اور ان کا بیٹا بھی شامل ہیں جن کا سال بھر کا خرچہ پانی سیبوں کے باغات سے ہونی والی آمدنی سے چلتا ہے۔

یہ سال منحوس ثابت ہوا۔ یہاں زندہ رہنا مشکل ہوگیا، زمینوں، باغات یا روزگار کی بات کون کرے، سیبوں کو بچانے کی کوشش ویسے بھی اس روز سے مشکوک ہوگی جب کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم ہونے کے بعد بیشتر بھارتیوں نے کشمیری لڑکیوں کو سیبوں سے مشابہت دی اور چلا چلا کر کہنے لگے کہ وہ اب کشمیر کے سیب کے ساتھ ساتھ کشمیر کی لڑکیاں بھی حاصل کریں گے۔ کشمیری زمینوں، جائیداد اور لڑکیوں پر اب بیشتر لوگوں کی للچائی ہوئی نظریں مرکوز ہیں۔

باغات میں سڑے ہوئے پھلوں کو دیکھ کر پہلے سارہ آپا اور بیٹا دونوں بہت روے۔ پھر ایک دوسرے کو تسلی دینے لگے، پھر اگلے سال مزید درخت لگانے کا منصوبہ بنانے لگے۔ ساتھ میں گلے سڑے سیبوں کو چن چن کر ایک طرف کرنے لگے۔ یہ سلسلہ کئی ہفتوں تک چلتا رہا۔ گوکہ پٹرولنگ پر مامور بھارتی فوجی ان کے باغات سے اکثر گزرتے رہتے اور ماں بیٹے کو سڑے پھلوں کے درمیان دیکھ کر کبھی اپنے ہوش گنواتے تو کبھی ان پر فقرے کستے... کچھ دیر کے بعد انہوں نے باغ میں آنا ہی چھوڑ دیا۔

سارہ آپا کا بیٹا پائلٹ بننا چاہتا تھا۔ چند برس پہلے جب وہ تربیت کے لیے باہر جانے کی تیاری ہی کر رہا تھا کہ والد کے اچانک فوت ہونے کی خبر ملی۔ والد کو قبر میں اتارنے کے ساتھ ساتھ اس نے اپنے خوابوں کو بھی دفن کر دیا۔

باغات کی دیکھ بھال، گھر داری اور گاوں کے چھوٹے بڑے مسائل کو حل کرنا ان کی زندگی کا معمول بن گیا۔ دو ہزار سولہ میں بندوق بردار برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سارہ آپا کا بیٹا اچانک گم سم ہوگیا۔ زیادہ وقت مسجد میں گزاراتا۔ گاؤں کے چند نوجوان پیلٹ فائرنگ میں بینائی سے محروم ہوگئے تھے اور وہ جانتا تھا کہ پیلٹ پھینکنے والے فوجی گاؤں کے بنکر سے یہاں کی لڑکیوں کو گھورتے رہتے ہیں۔ بینائی سے محروم ہونے پر شاید اتنا غصہ نہیں آتا جتنا گاؤں کی لڑکیوں کو گھورنے پر۔۔۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سارہ آپا نے پڑوسیوں سے کہا تھا کہ وہ غصے کی آگ میں اتنا بھڑک جاتا کہ کلہاڑی لے کر سیبوں کے درختوں کو کاٹنے لگتا ہے۔ اس روز سارہ آپا کے بیٹے نے کلہاڑی مار مار کے خود کو اتنا نڈھال کر دیا جس روز پڑوسی کی لڑکی جھیل سے پانی لانے کے دوران غائب ہوگئی تھی۔ سارہ آپا نے کہا کہ اس دن وہ ازان سننے کے بعد بھی نماز پڑھنے نہیں گیا۔

سارہ آپا کے بارے میں بعض گاؤں والے کہتے ہیں کہ فصلوں  کی تباہی کے بعد ذہنی توازن کھو چکی ہیں شاید اسی لیے دہلیز پر بیٹھ کر خود سے بڑبڑاتی رہتی ہیں۔

سارہ آپا سے جب پوچھا گیا کہ آپ کا بیٹا لاپتہ ہوا یا وہ خود چلاگیا؟

’میں نے اس کو بھیجا،‘ وہ فخریہ انداز میں کہتی ہیں۔

پڑوسی نے پوچھا آپ نے اس کو کہاں بھیجا؟
’میں نے اس کو شہادت حاصل کرنے کے لیے بھیجا۔‘

کیا؟ پاس میں بیٹھے پڑوسی ایک ساتھ بےاختیار بول پڑے۔
’جی ہاں۔ وہ بھی قافلے میں شامل ہوگیا ہے۔‘

کالاچشمہ پہنے ہوئے عورت نے پوچھا، کیا تم نہیں جانتی کہ وہ اینکاونٹر میں مارا جائے گا؟

’ہاں اسی لیے میں نے بھیجا تاکہ وہ ایک بار مر جائے ورنہ روز اس کو گھر میں دیکھ کر میں بھی تل تل مرتی رہتی ہوں۔ ہو سکتا ہے اس کی شہادت کے بعد میں بھی صدمے سے مر جاوں۔‘

سارہ آپا کے آس پاس گاؤں کے تمام نوجوان ابھی جمع ہو رہے تھے کہ بڑی تعداد میں گاؤں کا فوجی محاصرہ ہو گیا۔

دور سے آوازیں آ رہی تھیں کہ گاؤں میں اینکاونٹر شروع ہوگیا ہے۔

کہانی پلوامہ کی ایک عورت اور اس کے بیٹے کی ہے جس کا نام میں نے جان بوجھ کر پوشیدہ رکھا ہے اور سارہ فرضی نام رکھا ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ