سعودی تیل کی تنصیبات پر حملہ شمال سے ہوا: امریکی تحقیقاتی رپورٹ

جائے وقوعہ سے جمع  کیے گئے شواہد اور ہتھیاروں کے ملبے کے تجزیے کی عبوری تحقیقی رپورٹ کے مطابق اہداف پر لگنے سے پہلے ایک ڈرون نے تقریباً دو سو کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا جو حملے کی جگہ سے شمال مغرب میں تھا۔

20 ستمبر کو لی گئی اس تصویر میں ابقیق  آئیل پلانٹ کو ہونے والا نقصان دیکھا جا سکتا ہے (اے ایف پی)

امریکہ نے کہا ہے کہ 14 ستمبر کو سعودی عرب میں تیل کی تنصیبات پر ہونے والے حملے کی جگہ سے ملنے والے نئے شواہد اور ہتھیاروں کے ملبے کے تجزیے سے معلوم ہوا ہے کہ حملہ ممکنہ طور پر شمال سے ہوا۔ اس سے امریکہ کے پہلے تخمینے کو تقویت ملتی ہے کہ حملے کے پیچھے ایران تھا۔

اس حملے کی تحقیقات کی عبوری رپورٹ جمعرات کو اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں پیش ہونی تھی جس سے پہلے خبر رساں ادارے روئٹرز کو اس کو دیکھنے کا موقع ملا۔

روئٹرز کے مطابق رپورٹ میں واشنگٹن نے اندازہ لگایا کہ اپنے اہداف پر لگنے سے پہلے ایک ڈرون نے تقریباً دو سو کلومیٹر کا فاصلہ طے کیا جو حملے کی جگہ سے شمال مغرب میں تھا۔

عبوری رپورٹ میں کہا گیا: ’یہ اور اس اندازے کو ملا کر کہ ان مینڈ ائیرل وہیکل (یعنی ڈرون یا بغیر پائلٹ کے اڑنے والا طیارہ) کی زیادہ سے زیادہ رینج 900 کلومیٹر ہے سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اس بات کا امکان زیادہ ہے کہ حملہ ابقیق کے شمال سے ہوا۔‘ ابقیق ان تنصیبات میں شامل ہے جن ہر حملہ ہوا۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ امریکہ نے اس حملے میں استعمال ہونے والے ڈرونز اور IRN-05 UAV نامی ایک ایران میں ڈئزائن اور بننے والے ایئرکرافٹ کے درمیان  کئی مماثلتوں کی شناخت کی ہے۔  

تاہم رپورٹ میں کہا گیا کہ حملے میں استعمال ہونے والے ہتھیاروں کے ملبے کی جانچ سے سڑائیک کی  جڑ کا واضح طور پر پتہ نہیں لگ سکا۔  اس حملے  کے نتیجے میں  سعودی عرب کی  تقریباً آدھی تیل کی پیداوار روک دی  تھی۔

اس میں مزید کہا گیا: ’اس وقت امریکی انٹیلی جنس کمیونٹی  کو سعودی عرب  میں 14 ستمبر کو ہونے والے حملے میں استعمال  کیے گئے  ہتھیاروں پر کیے گئے تجزیے میں سے کوئی ایسی معلومات نہیں ملیں جس سے حملے کی جڑ کا واضح پتہ چل سکے۔‘

سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے  ایک اہلکار نے روئٹرز کو بتایا کہ ان نئے نتائج میں حال ہی میں عام کی جانے والی معلومات بھی شامل ہیں۔

امریکہ، یورپی ممالک اور سعودی عرب نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ حملہ ایران  نے کیا تھا۔  یمن کے حوثی باغیوں نے حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی، اور ایران، جو حوثیوں کی امداد کرتا ہے، نے اس میں ملوث ہونے سے انکار کیا تھا۔ 

یمن  سعودی عرب کے جنوب میں واقع ہے۔

تیل کی قیمتوں میں اضافہ

روئٹرز نے گذشتہ ماہ رپورٹ کیا تھا کہ ایران کی قیادت نے حملوں کی اجازت دی تھی لیکن براہ راست مدمقابل آنے سے فوراً ہی روکنے کا فیصلہ کیا جس سے امریکہ کی جانب سے زبردست ردعمل آ سکتا تھا۔

ملاقاتوں کے بارے میں علم رکھنے والے تین عہدیداروں اور چوتھے وہ جو ایران کے فیصلہ ساز کے قریبی ہیں کے مطابق ایران نے ان حملوں کے بجائے امریکہ کے اتحادی سعودی عرب کی ابقیق اور خریص آئل پلانٹس کو نشانہ بنانے کا فیصلہ کیا۔

روئٹرز کی رپورٹ کے مطابق مشرق وسطیٰ کے ذرائع نے بتایا کہ لانچ کرنے کا مقام جنوب مغربی ایران میں موجود اہواز ایئر بیس تھا جو ابقیق سے تقریباً 650 کلومیٹر دور شمال میں ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ویسٹرن انٹیلی جنس ذرائع کے مطابق حملے کے لیے اڑنے والے بعض طیارے عراق اور کویت کے اوپر سے گئے جو کہ ایران کے پاس مسترد کرنے کی معقول وجہ ہو سکتی ہے۔

18 ڈرونز اور تین کم بلندی پر اڑنے والے میزائل سے اس 17 منٹ کے حملے کے نتیجے میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ، آگ، نقصان اور دنیا بھر میں تیل کی سپلائی میں پانچ فیصد بندش دیکھی گئی۔ تاہم سعودی عرب نے تین اکتوبر کو کہا تھا کہ تیل کی تنصیبات مکمل طور پر بحال کر دی گئی ہیں۔

ایران کے لیے امریکہ کے خصوصی ایلچی برائن ہک نے روئٹرز کو بتایا ہے کہ تازہ ترین عام کی جانی والی معلومات سے شواہد ملتے ہیں کہ ان حملوں کے پیچھے ایران تھا۔

انھوں نے کہا کہ ’یو اے وی شمال سے سعودی عرب میں داخل ہوئے، اور ملنے والے ملبے میں ایرانی مواد ملا ہے۔‘

’بہت سے ممالک اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اس کے علاوہ کوئی اور معقول وجہ نہیں ہے کہ ایران ہی ذمہ دار ہے۔‘

جمعرات کو اقوام متحدہ میں امریکہ کی سفیر نے سلامتی کونسل کو بتایا کہ ’تیل کی تنصیبات کو پہنچنے والے نقصان سے ظاہر ہے کہ حملہ شمال سے ہوا ہے، نہ کہ جنوب سے، جہاں امکان ہوتا ہے کہ حوثی ذمہ دار ہو سکتے ہیں۔‘

اقوام متحدہ میں ایران کے سفیر ماجد تخت روانچی نے سکیورٹی کونسل میں اپنے خطاب کے دوران سعودی تیل کی تنصیبات پر ایرانی حملوں کے الزام کو واضح طور پر مسترد کر دیا۔ انھوں نے امریکی پابندیوں کو ’معاشی دہشت گردی‘ قرار دیا اور کہا کہ ’ایران تلوار کے سائے میں مذاکرات نہیں کرے گا۔‘

ڈرون کے حصے ’تقریباً قابل شناخت ہیں‘

گذشتہ ہفتے ایک رپورٹ میں اقوام متحدہ کا کہنا تھا کہ وہ ’آزادانہ طور پر تصدیق نہیں کر سکے کہ جو میزائل اور ڈرون سعودی تنصیبات پر ستمبر میں ہونے والے حملے میں استعمال ہوئے وہ ایرانی ساختہ تھے۔‘

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ یمن کے حوثیوں نے یہ کھبی نہیں دکھایا ان  کے پاس اس قسم کے ڈرونز ہیں جو آرامکو تنصیبات پر حملے میں استعمال ہوئے اور نہ ہی کبھی اس بات کا اندازہ لگایا گیا ہے۔

امریکی حکومت کے عبوری تجزیے میں ڈرون طیاروں کے ٹکڑوں کی تصاویر بھی شامل ہیں۔ ان ٹکڑوں میں ڈرون کا انجن بھی ہے جسے امریکہ نے ایران کے پائلٹ کے بغیر پرواز کرنے والے طیاروں میں نصب انجن کے’انتہائی مشابہہ‘ یا ’تقریباًاسی جیسا‘ پایا۔

تجزیے کی رپورٹ میں سمت کے تعین کے لیے استعمال ہونے والے آلے کمپس کے سرکٹ بورڈ کی تصاویر بھی فراہم کی گئی ہیں۔ یہ کمپس حملے کے مقام سے ملا تھا اور اس پر بنے نشانات ممکنہ طور پر اس کی تیاری کی تاریخ ہیں۔ یہ تاریخ فارسی کیلینڈر کے سال سے مطابقت رکھتی ہے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ایک کمپنی کی کے نام کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے وہ ایران سے وابستہ ہے۔ سادرا نامی کمپنی 14 ستمبر کو ملنے والے ملبے میں شامل تاروں کے گچھے سے بھی شناخت کیا گیا۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گذشتہ برس 2015 کے ایٹمی معاہدے سے علیحدگی اختیار کر لی تھی جو عالمی طاقتوں اور ایران کے درمیان ہوا تھا۔ امریکی صدر نے ایران پر دوبارہ پابندیاں لگا دیں تاکہ ایران کی جانب سے خام تیل کی فروخت روکی جا سکے جو اس کی آمدن کا بڑا ذریعہ ہے۔

ایران پر زیادہ سے زیادہ دباؤ ڈالنے کے لیے امریکہ کئی ایرانی اداورں، کمپنیوں اور افراد پر بھی پابندیاں عائد کر چکا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا