برطانوی یونیورسٹیوں میں فیلوشپ کے لیے ویزوں میں نرمی کا اعلان

برطانیہ نے بریگزٹ کے باعث ریسرچ کو پہنچنے والے ممکنہ نقصان کے خوف سے یونیورسٹیوں میں تحقیق کے لیے مدعو کرنے کا سلسلہ تیز کر دیا۔

برطانیہ بریگزٹ کے خوف سے ملک چھوڑنے والے سائنس دانوں کی کمی پورا کرنے کے لیے پریشان(پکسا بے)

بریگزٹ کے باعث تحقیقی منصوبوں کو پہنچنے والے ممکنہ نقصان کے خوف سے برطانیہ نے فاسٹ ٹریک ویزا پالیسی کے ذریعے دنیا بھر سے سائنس دانوں کو ملکی یونیورسٹیوں میں تحقیق کے لیے مدعو کرنے کا سلسلہ تیز کر دیا ۔

برطانیہ ایسے ویزوں کی تعداد دگنا کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

برطانیہ کی وزیر داخلہ پریتی پٹیل نے اپنے ایک بیان میں اعلان کیا کہ وہ فوری طور پر سائنس ریسرچ میں فیلوشپ کے لیے ویزوں کی تعداد 62 سے بڑھا کر 120 سے بھی زیادہ کر دیں گی۔

حکومت نے یہ قدم ایک ایسے وقت پراٹھانے کا فیصلہ کیا ہے، جب برطانیہ کے یورپی یونین چھوڑنے کے بعد ملکی یونیورسٹیوں کے سربراہوں نے خبردار کیا تھا کہ بریگزٹ سے ملک کو نہ صرف سائنسی تحقیق اور قابلیت کی کمی کا سامنا کرنا پڑے گا بلکہ اس سے برطانوی اداروں کی دنیا میں ساکھ بھی متاثر ہو گی۔

فاسٹ ٹریک پالیسی کے تحت سائنسی تحقیق میں فیلو شپ حاصل کرنے کے لیے امیدواروں کو متعلقہ فنڈنگ کے لیے اداروں سے محض ایک مراسلہ درکار ہو گا، جس کے بعد ان کے ویزے کی درخواستوں کو ہوم آفس ترجیحی بنیادوں پر نمٹائے گا۔

برطانوی وزرا کا کہنا ہے کہ اس فیصلے سے سائنس دانوں اور تحقیق کاروں کی جلد از جلد برطانیہ آمد کو یقینی بنایا جائے گا جس سے برطانیہ کو ایجادات میں اپنی سبقت برقرار رکھنے اور مستقبل کے چیلنچز سے نمٹنے میں مدد ملے گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس سے قبل یونیورسٹیوں کے سربراہوں نے خبردار کیا تھا کہ ڈیل کے بغیر یورپی یونین چھوڑنے سے اہم تحقیقاتی منصوبے متاثر ہو سکتے ہیں جس سے برطانیہ علم اور سائنس کے میدان میں اپنا مقام کھو دے گا۔

برطانیہ کی 24 معتبر یونیورسٹیوں کے گروپ ’رسیل‘ کے ایک تجزیے کے مطابق بریگزٹ کے باعث پیدا ہونے والی غیر یقینی صورتحال کے بعد یورپی یونین سے تعلق رکھنے والے قابل ترین سائنس دان اور ماہرین تعلیم برطانیہ چھوڑ چکے ہیں۔

اگست میں بورس جانسن نے اعلان کیا تھا کہ بریگزٹ کے بعد دنیا بھر سے آنے والے ان قابل سائنس دانوں کو برطانیہ آنے سے نہیں روکا جائے گا جن کی برطانوی ادارے توثیق کر چکے ہوں گے۔

ہوم آفس نے حال ہی میں ایک نیا سیٹ اپ تشکیل دیا ہے جس کے تحت فیلو شپ پروگرام کو کو فوری طور پر بڑھایا جائے گا۔

پریتی پٹیل کا اس بارے میں کہنا تھا: ’ہم چاہتے ہیں کہ برطانیہ ایجادات کے میدان میں دنیا کی رہنمائی جاری رکھے اس کے لیے ہمیں ایک ایسے امیگریشن سسٹم کی ضرورت ہے جو دنیا بھر کے بہترین دماغوں کو اپنی جانب راغب کر سکے۔‘

’اس پرعزم پروگرام کے تحت ہم آج ایسے عملی اقدامات اٹھا رہے ہیں جن سے ٹاپ کے سائنس دان اور تحقیق کار برطانیہ آمد کے لیے اس فاسٹ ٹریک سسٹم کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔‘

رسیل گروپ میں پالیسی کے تجزیہ کار بین مور کا کہنا ہے کہ حکومتی اعلان سے ظاہر ہوتا ہے کہ برطانیہ دنیا بھر سے قابل ترین افراد اور صفِ اول کے سائنس دانوں کو راغب کرنے کے لیے سنجیدہ ہے۔

تاہم ان کا کہنا تھا ’اب بھی مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کا اگلا قدم یہ ہونا چاہیے کہ وہ یونیورسٹیوں کو نئے پوائنٹس سسٹم اور مجوزہ گلوبل ٹیلنٹ ویزا کے تحت تحقیق کے لیے تمام ضروری سٹاف بھرتی کرنے کی اجازت دے جن میں ابتدائی کیرئیر شروع کرنے والے افراد اور لیبارٹری ٹکنیشینز بھی شامل ہوں۔‘

وائس چانسلرز کی تنظیم ’یونیورسٹیز یو کے‘ کے چیف ایگزیکٹیو الیسٹر جاریوس کا کہنا تھا: ’حکومت کے اس اعلان سے ایک ایسے وقت میں بہترین تحقیق کاروں اور روشن ستاروں کی برطانیہ آمد میں مدد ملے گی جب عالمی سطح پر اہم تبدیلیا ں رونما ہو رہی ہیں۔‘

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی یورپ