‘شام کے کیمپوں میں ڈھائی ہزار سے زائد غیر ملکی بچے ہیں’

بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے سیو دی چلڈرن نے کہا ہے کہ شمال مشرقی شام کے تین پناہ گزین کیمپوں میں تقریباً 30 ممالک کے ڈھائی ہزار سے زائد بچے مقیم ہیں۔

فوٹو کریڈٹ: گیٹی

بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والے ادارے سیو دی چلڈرن نے کہا ہے کہ شمال مشرقی شام کے تین پناہ گزین کیمپوں میں تقریباً 30 ممالک کے ڈھائی ہزار سے زائد بچے مقیم ہیں۔

تنظیم نے ان اعداد و شمار کا انکشاف برطانوی شہری شمیمہ بیگم کی وطن لوٹنے کی اجازت ملنے کی خواہش کے سامنے آنے کے بعد کیا۔

19 سالہ طالبہ شمیمہ بیگم 15 سال کی عمر میں لندن میں اپنا گھر چھوڑ کر شام چلی گئی تھیں۔ وہاں وہ داعش میں شامل ہو گئیں اور شادی کر لی۔ حال ہی میں جب انھوں نے اپنے نومولود بچے کے ہمراہ شام کے پناہ گزین کیمپ سے وطن لوٹنے کی خواہش ظاہر کی تو ان کی برطانوی شہریت منسوخ کر دی گئی۔

سیو دی چلڈرن نے کہا ہے کہ لگ بھگ ڈھائی ہزار بچوں ’جن کا تعلق داعش سے منسلک مشتبہ خاندانوں‘ سے ہے کو کیمپوں کی دیگر آبادی سے الگ رکھا گیا ہے جس کے نتیجے میں ان کے لیے امداد اور سہولتوں میں رکاوٹیں پیدا ہوتی ہیں۔

اُن میں سے زیادہ تر اپنی ماؤں کے ساتھ رہ رہے ہیں جبکہ تنہا بچوں کے لیے عارضی نگراں مقرر کیے گئے ہیں۔ بعض لڑکیاں تو ایسی ہیں جنہیں داعش نے بچپن میں بھرتی کیا تھا اور اب وہ مائیں بن چکی ہیں۔

امدادی کارکنوں کا کہنا ہے کہ کیمپوں میں رہنے والے بچوں کو جان لیوا خطرات کا سامنا ہے۔

برطانیہ میں سیو دی چلڈرن کی کرسٹی مک نیل کے مطابق `تمام بچے جو داعش سے ہیں یا اس سے تعلق ہونے کا شبہ ہے، وہ جنگ کے متاثرین ہیں اور ان سے ویسا ہی سلوک ہونا چاہیے۔`

’ہمارے خیال میں بچوں کے بہترین مفاد انتہائی اہم ہیں اور ماں اور بچے کو جہاں ممکن ہو، ساتھ رہنا چاہیے۔‘

’شمیمہ بیگم کو بچپن میں انتہا پسندی کی طرف لے جایا گیا۔ اب وہ اپنے بچے کے ساتھ کیمپ میں ہیں جو داعش کے سابق اراکین سے گھرا ہوا ہے۔ انہیں واپس برطانیہ اور محفوظ مقام پر لانا بہت اہم ہے تاکہ واضح طور پر سمجھا جا سکے کہ ان کے ساتھ ہوا کیا۔‘

جوں جوں داعش کے زیرِ قبضہ علاقے سکڑ رہے ہیں، عام شہری بڑی تعداد میں ان علاقوں سے باہر نکل رہے ہیں۔ ایک اہلکار کے مطابق گذشتہ ماہ داعش کے علاقوں سے 20 ہزار سے زائد لوگ فرار ہوئے۔

جنوری سے ہزاروں شامی خاندانوں کے علاوہ 560 غیر ملکی خاندان بھی 1100 بچوں کے ہمراہ کیمپوں میں پہنچے ہیں۔

داعش کی سکڑتی ’خلافت‘ دسمبر سے شدید بمباری کی زد میں ہے اور وہاں خوارک کی ترسیل بھی بند ہے۔

فرار ہو کر کیمپوں میں پہنچنے والے بتاتے ہیں کہ وہ کئی کئی دنوں تک بھوکے رہے۔ 

انٹرنیشنل ریسکیو کمیٹی نے بتایا ہے کہ 62 افراد راستے میں ہی جسمانی حرارت سے کم درجہ حرارت، بیماری یا بھوک سے مر گئے۔ ان میں 50 بچے تھے جن کی عمریں ایک سال سے کم تھیں۔

سیو دی چلڈرن نے ممالک سے اپنے شہری بچوں اور خاندانوں کو شام سے واپس لے جانے کی اپیل کی ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی نئی نسل