چائے کے خریدار ممالک کی کمزور کرنسی اور چائے انڈسٹری کا نیا رجحان

کینیا نے سال 2018 میں 49 کروڑ 30 لاکھ کلو چائے پیدا کی لیکن اس کا ستر فیصد صرف چار ممالک کو فروخت کیا گیا۔

کینیا سے سب سے زیادہ چائے خریدنے والے ممالک میں پاکستان، مصر اور برطانیہ شامل ہیں۔(پکسابے)

کینیا کے بلند قامت پہاڑوں پر واقع فیکٹری میں چائے کے پتوں کو ہاتھ سے توڑنے کے بعد صاف کرنے اور چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کرکے لندن سے لاہور تک موجود چائے کے دیوانوں کے لیے روانہ کر دیا جاتا ہے۔

لیکن کینیا کی اس مہنگی چائے کی قیمت اب وہ نہیں رہی جو کسی زمانے میں ہوا کرتی تھی جس کی وجہ سے دنیا کا سب سے مشہور مشروب برآمد کرنے والے سپلائر اب کسی نئی چیز کی تلاش میں ہیں۔

نائری فیکٹری کے گرد موجود پہاڑوں پر کام کرنے والے کئی اقسام کی چائے کے تجربے میں مصروف ہیں۔ ان کا مقصد دہائیوں سے جاری روایت سے منحرف ہوتے افراد کے ساتھ ساتھ نئے خریداروں کو اس جانب متوجہ کرانا ہے۔ غیر مستحکم قیمتیں بھی اس کی ایک وجہ ہیں۔

گٹوگی کے علاقے میں موجود پہاڑوں کی جڑ میں موجود فیکٹری میں اسی لیے ایک نیا مکمل پتہ جس کو بھرپور توجہ سے تیار کیا گیا ہے وہاں جون سے ہی مختلف اقسام کی چائے پر تجربات جاری ہیں۔
کینیا کے دارالحکومت نیروبی سے 85 کلو میٹر دور واقع نائری کی رہائشی نفتالی نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ ’ ہم کئی سالوں سے روایتی چائے پر انحصار کرتے رہے لیکن اب قیمتیں گر چکی ہیں۔‘

قیمتوں میں ردوبدل کے اثرات چائے کے سب سے بڑے برآمد کنندہ کینیا میں بری طرح محسوس کیے گئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کینیا ٹی ڈیویلپمنٹ ایجنسی کے مطابق کینیا میں ہر دس میں سے ایک فرد کی آمدن کا انحصار چائے پر ہے۔ یہ ایجنسی کینیا کے 6 لاکھ 50 ہزار چائے کے چھوٹے کاشتکاروں کی نمائندگی کرتی ہے۔ آمدن کم ہونے پر کاشتکاروں کی جانب سے احتجاج بھی کیا گیا اور چائے کی کمپنیوں کو بڑا نقصان اٹھانا پڑا۔ رسد کا زیادہ ہونا بھی اس کی ایک وجہ قرار دیا جا رہا ہے۔

 کینیا نے سال 2018 میں 49 کروڑ 30 لاکھ کلو چائے پیدا کی لیکن اس کا ستر فیصد صرف چار ممالک کو فروخت کیا گیا۔ کینیا سے سب سے زیادہ چائے خریدنے والے ممالک میں پاکستان، مصر اور برطانیہ شامل ہیں۔ یہاں مقامی کرنسی کمزور ہونے کی وجہ سے چائے درآمد کرنا پہلے کے مقابلے میں مہنگا ہو چکا ہے۔

ان ممالک کے علاوہ چائے کے بڑے خریداروں میں ایران، سوڈان اور یمن شامل ہیں لیکن ان ممالک کو بھی ادائیگیوں میں مشکلات کا سامنا ہے۔

‘کے ٹی ڈی اے کے چیف ایگزیکٹو لیرونکا تیامپتی نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’ہمارے بڑے خریدار مسائل کا شکار ہیں۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’ جب آپ قیمتوں کو قابو میں نہیں رکھ سکتے تو آپ کچھ بھی نہیں کر سکتے لیکن ہم اب اپنی مصنوعات کو متنوع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

گٹوگی فیکٹری میں چائے کی نئی اقسام پر تجربے میں مصروف موگامبی کا کہنا ہے کہ ’خریداروں کے پسندیدہ زائقے کی ترجیحات بدل رہی ہیں۔ اب چائے نوش کرنے والے اپنی پسند کے معاملے میں بہت زیادہ آگاہ ہیں۔ اگر میں چائے پر رقم خرچ کر رہا ہوں تو میں چاہوں گا اس میں یقینی خصوصیات موجود ہوں۔‘

موگامبی کے مطابق روسی چائے کے مکمل پتے پسند کرتے ہیں جبکہ جرمن صرف پتوں کا اوپری حصہ، جب کہ سعودی خریدار اپنی چائے مکمل سیاہ چاہتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت