پاکستان اور انڈیا میں حالیہ کشیدگی کے دوران پیدا ہونے والے کاروباری حالات اور سیز فائر کے بعد کی صورت حال میں واضح تبدیلی دیکھنے میں آئی ہے۔
جیوپولیٹیکل واقعات کس طرح معیشت، سرمایہ کاری کے رجحانات، اور سٹاک مارکیٹ پر اثرانداز ہوتے ہیں، اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے ماہرین سے گفتگو کی۔
ڈائریکٹر سٹاک ایکسچینج احمد چنائے نے اس موضوع پر بتایا کہ حالیہ پاکستان انڈیا کشیدگی کے دوران سرمایہ کاروں کو شدید خطرات کا سامنا تھا۔
’یہ خدشہ موجود تھا کہ اگر خدانخواستہ جنگ پھیل گئی تو ملک کے شہری علاقوں، صنعتی پیداوار، تجارت، بندرگاہوں پر موجود درآمدی مال، کرنسی کی قدر اور مجموعی معیشت پر گہرے منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ ایسے ماحول میں سٹاک مارکیٹ شدید دباؤ میں آ گئی تھی۔ مارکیٹ انڈیکس 20 ہزار پوائنٹس سے نیچے گر گیا اور ایک موقعے پر ساڑھے سات ہزار پوائنٹس کی تاریخی کمی دیکھی گئی۔‘
انہوں نے کہا کہ تاہم، جب یہ اطلاعات سامنے آئیں کہ حالات بہتری کی طرف جا رہے ہیں، تو مارکیٹ میں جزوی سنبھال آیا۔ سیز فائرکے اعلان کے ساتھ ہی سرمایہ کاروں، چاہے وہ ملکی ہوں یا غیرملکی، کا اعتماد بحال ہونے لگا۔
’12 مئی کو کاروباری ہفتے کے پہلے روز، مارکیٹ 100انڈیکس میں 10 ہزار پوائنٹس کا اضافہ دیکھنے میں آیا، جبکہ 13 مئی کو مزید دو ہزار پوائنٹس کی تیزی ریکارڈ کی گئی۔
ان کے خیال میں ان دو دنوں نے ثابت کر دیا کہ سرمایہ کار پاکستان پر بھروسہ کرتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بقول احمد چنائے کے: ’یہ بھی خوش آئند بات ہے کہ غیرملکی سرمایہ کاری میں اضافہ ہوا ہے۔ وہ سرمایہ کار جوغیر یقینی کی فضا میں مارکیٹ سے نکل گئے تھے، اب واپس آ رہے ہیں۔‘
احمد چنائے کا مزید یہ بھی کہنا تھا کہ ’سپیشل انویسٹمنٹ فیسیلیٹیشن کونسل (ایس آئی ایف سی) کے تحت جو شعبے متحرک تھے— جیسے دفاع، مائن اینڈ منرلز، آئی ٹی، اور دیگر صنعتی و تکنیکی میدان اب ان پر کام تیزی سے آگے بڑھے گا۔ جو رکاوٹیں ماضی میں موجود تھیں، وہ دور ہو چکی ہیں۔
’میں پورے اعتماد سے کہہ سکتا ہوں کہ آج بھی پاکستان کی سٹاک مارکیٹ اپنی اصل قدر سے کم سطح پر ہے۔ اس کی بنیادی وجہ سرمایہ کاروں کا اعتماد کا فقدان تھا، جو اب بحال ہو چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مارکیٹ میں ابھی بھی ترقی کی بھرپور گنجائش موجود ہے اور سرمایہ کاری کے رجحانات تیزی سے مثبت سمت اختیار کر رہے ہیں۔‘
سرمایہ کار ثانی خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’حالیہ پاکستان انڈیا کشیدگی کے دوران، بلاشبہ سرمایہ کاروں میں وقتی طور پر بے یقینی پیدا ہوئی لیکن اہم بات یہ ہے کہ وہ گھبرائے نہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ سرمایہ کاروں نے جذباتی ردعمل دینے کے بجائے حقیقت پسندانہ رویہ اختیار کیا۔ انویسٹرز نے اس دوران محتاط حکمت عملی اپنائی اور دفاعی شعبوں کی طرف منتقل ہو گئے۔ توانائی (انرجی)، صارفین کی بنیادی ضروریات (کنزیومر سٹیپلز) اور سیمنٹ جیسے سیکٹرز میں سرمایہ منتقل کیا گیا۔ یہ رویہ 2005، 2006 اور 2009 جیسے بحرانوں سے مختلف تھا جہاں عموماً شدید فروخت دیکھی جاتی تھی۔‘
ثانی خان کے مطابق: ’اس بار مارکیٹ میں قلیل مدتی اصلاح (شارٹ ٹرم کریکشن) ضرور ہوئی، لیکن اعتماد مکمل طور پر ختم نہیں ہوا۔ معاشی بنیادوں (فنڈامنٹلز) میں کوئی حقیقی بگاڑ پیدا نہیں ہوا۔ وزیر خزانہ اورنگزیب خان نے بروقت وضاحت کر دی تھی کہ طویل مدتی معاشی استحکام (لانگ ٹرم سسٹینیبلیٹی) کو کوئی خطرہ لاحق نہیں۔ تاہم سیز فائر نے سرمایہ کاروں کے اعتماد کی بحالی میں مرکزی کردار ادا کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی منظوری، شرح سود میں کمی، اور معاشی اشاریوں (اکنامک انڈیکیٹرز) میں بہتری نے بھی مارکیٹ کو سہارا دیا۔‘
انہوں نے کہا کہ بازار میں اعتماد بحال ہوا ہے، سرمایہ کاروں کا ووٹ سرمایہ کاری کے حق میں ہے، لیکن یہ سرمایہ کاری اب سوچ سمجھ کر، منتخب شعبوں (سلیکٹیو انویسٹمنٹ) اور کمائی کی بنیاد پر ہو رہی ہے۔
ثانی خان کا کہنا تھا کہ ’اس وقت ہمارا مارکیٹ کا اندازِ قیمت 5.87 ہے، جبکہ تاریخی اوسط آٹھ کے آس پاس رہا ہے، جس کا مطلب ہے کہ اب بھی بہت صلاحیت موجود ہے۔ توانائی کا شعبہ، خاص طور پر آئل اینڈ گیس ڈویلپمنٹ کمپنی لمیٹڈ (او جی ڈی سی ایل)، پاکستان پیٹرولیم لمیٹڈ (پی پی ایل)، ایس این جی پی، اور ایس ایس جی سی جیسے ادارے، مارکیٹ کو آگے لے کر جا رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں بازار نے 40 ہزار پوائنٹس کا اضافہ کیا، اور مستقبل میں بھی یہی چار، پانچ سٹاک 30 سے 35 ہزار پوائنٹس کی کارکردگی میں کردار ادا کریں گے۔
ان کے مطابق اس کے علاوہ بینکاری (بنکنگ)، سیمنٹ اور دیگر موسمی شعبے (سائیکلکل سیکٹرز) بھی توجہ کے مستحق ہیں۔ رواں مالی سال میں صرف 19 یا 20 کاروباری سیشن باقی رہ گئے ہیں، اور میرا اندازہ ہے کہ بازار 125,000 سے130,000 کی حد میں رہے گا۔
بقول ثانی خان کے: ’اگر بارڈر پر امن قائم رہے، پاکستان انڈیا مذاکرات صحیح سمت میں جائیں، انڈیا سندھ طاس معاہدہ (واٹر ٹریٹی) کی خلاف ورزی سے باز رہے، اور امریکہ میں ٹرمپ کی تجارتی پالیسیز چین کے ساتھ کپڑے (ٹیکسٹائل) کے شعبے کے لیے سازگار رہیں—تو پاکستان کا سٹاک بازار نہ صرف مستحکم بلکہ تیزی سے ترقی کرتا دکھائی دے سکتا ہے۔ سال 2025 میں میرے اندازے کے مطابق مارکیٹ 175,000 کا ہدف عبور کر سکتی ہے۔ اگر حکومت سرکلر ڈیٹ کی حتمی تصفیے (سیٹلمنٹ) کا اعلان کر دے، تو توانائی کے شعبے میں بڑی تیزی (ریلی) کی توقع کی جا سکتی ہے، بالخصوص پی پی ایل، او جی ڈی سی اور ایس ایس جی سی جیسے سٹاکس میں۔‘
صنعت کار شبیر منشا نے انڈپینڈنٹ اردو سے اپنے تجزیے میں کہا کہ ’یہ کوئی معمولی بات نہیں کہ جب دنیا میں کسی بھی ملک میں جنگ کا خطرہ پیدا ہوتا ہے، تو لوگ ایندھن، راشن اور ادویات کے ذخیرے میں لگ جاتے ہیں، پٹرول پمپوں پر قطاریں لگ جاتی ہیں، بازاروں میں رش لگ جاتا ہے۔ لیکن پاکستان میں اس کشیدگی کے دوران نہ کوئی بدحواسی نظر آئی، نہ پٹرول یا اشیائے خورونوش کی قلت، نہ کسی جگہ خوف و ہراس کی فضا بنی۔‘
صنعت کار شبیر منشا بتاتے ہیں کہ ’اس تمام استحکام میں تاجروں اور صنعتکاروں کا کردار نمایاں رہا۔ کسی بھی مقام پر غذائی اشیا، ایندھن یا ادویات کی سپلائی میں کوئی رکاوٹ پیدا نہیں ہوئی۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارا نجی شعبہ قومی جذبے کے ساتھ، ریاست کے شانہ بشانہ کھڑا ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ جہاں تک مالیاتی اور سٹاک منڈیوں (مارکیٹس) کی بات ہے، تو ایسے نازک مواقع پر ان کا محتاط رویہ فطری ہوتا ہے۔ لیکن اگر ہم باریکی سے جائزہ لیں تو نہ زرِ مبادلہ (ڈالر) میں کسی قسم کی شدید تبدیلی ہوئی، نہ ہی منی مارکیٹ میں کوئی غیر معمولی پریشانی دیکھنے میں آئی۔ سٹاک مارکیٹ میں معمولی وقتی کمی ضرور آئی، مگر بعد ازاں انڈیکس نے بہتر کارکردگی دکھائی اور یہ اپنے بلند ترین سطح کے قریب چل رہی ہے، جو ایک مثبت اشارہ ہے۔
’دنیا میں جغرافیائی سیاسی صورت حال (جیو پولیٹیکل سیچویشن) تبدیل ہو رہی ہے، خصوصاً امریکہ کے صدر ٹرمپ کی پالیسیوں کے بعد محصولات (ٹیرف) کے نظام میں جس قسم کی تبدیلی آئی ہے، اس میں پاکستان جیسے ممالک کو یہ موقع مل سکتا ہے کہ وہ اپنی پیداواری صلاحیت بڑھا کر عالمی منڈیوں میں اپنی جگہ بنائیں۔ ہمیں ان تبدیلیوں کو چیلنج کے بجائے موقع سمجھنا ہو گا۔‘
ماہر معیشت خرم شہزاد کے مطابق: ’اس نمایاں بہتری کے پیچھے کئی مثبت عوامل کارفرما ہیں۔ سب سے اہم عنصر بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے پاکستان کے لیے 2.4 ارب ڈالر کی مالی معاونت کی منظور کی، جس نے بین الاقوامی سطح پر بھی پاکستان کی معیشت کے حوالے سے ایک مثبت پیغام دیا۔ اس کے علاوہ شرح سود میں مزید کمی اور حکومتی پالیسیوں میں تسلسل نے بھی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
’سرمایہ کاروں کے اعتماد کی بحالی، اس مضبوط مظاہرے کے بعد پاکستان کی بہتر سودے بازی کی صلاحیت، گرتیہوئی سود کی شرح، آئی ایم ایف کی مالی معاونت میں اضافہ، علاقائی سرمایہ کاروں کی نئی دلچسپی، خطے میں کم ترین مہنگائی کی شرح اور مستحکم کرنسی — یہ تمام عوامل پاکستان کو مستقبل میں ایک مضبوط اقتصادی ترقی کے لیے سازگار بناتے ہیں۔‘
ماہرین کا ماننا ہے کہ اگر یہ مثبت رجحانات برقرار رہے تو پاکستان سٹاک مارکیٹ آئندہ دنوں میں مزید استحکام اور ترقی کی جانب گامزن ہو سکتی ہے۔