پاکستان کو عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے بدھ کو توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) کے تحت 1.023 ارب ڈالر کی قسط موصول ہوگئی ہے اور سٹیٹ بینک آف پاکستان نے اس دوسری قسط کی وصولی کی تصدیق کی ہے۔
آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ نے نو مئی 2025 کو ہونے والے اجلاس میں توسیعی سہولت فنڈ کے تحت پاکستان کے لیے اپنے پہلے جائزے کو مکمل کرتے ہوئے اس رقم کے اجرا کی منظوری دی تھی۔
سٹیٹ بینک نے اس حوالے سے ایکس پر پیغام میں لکھا کہ آج توسیعی فنڈ سہولت کے تحت آئی ایم ایف سے ایک ارب اور دو کروڑ کی قسط موصول ہوئی ہے۔
#SBP has received the second tranche of SDR 760 million (US$ 1,023 million) from the IMF under the EFF program. The amount will be reflected in SBP’s foreign exchange reserves for the week ending on 16th May 2025. pic.twitter.com/VJgxEd10Nl
— SBP (@StateBank_Pak) May 14, 2025
یہ پیش رفت ایک ایسے وقت میں ہوئی جب انڈیا نے آئی ایم ایف سے پاکستان کو قرضے کی نئی قسط نہ جاری کرنے کے حوالے سے کوشش کی تھی اور کہا تھا کہ یہ فنڈز ’سرحد پار دہشت گردی‘ میں استعمال ہوں گے۔
جس پر پاکستان کے مشیر خزانہ خرم شہزاد نے کہا تھا کہ انڈیا کی جانب سے قرض دہندگان سے پاکستان کے قرضوں پر تحفظات کا اظہار کیے جانے اور نظرثانی کی درخواست کے باوجود آئی ایم ایف کا پروگرام مکمل طور پر ٹریک پر ہے۔
یہ قسط پاکستان کی معیشت کے استحکام کے لیے جاری سات ارب ڈالر کے پروگرام کا حصہ ہے، جس کا مقصد ملک کی مالیاتی پوزیشن کو بہتر بنانا اور اقتصادی اصلاحات کو فروغ دینا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سٹیٹ بینک آف پاکستان کے مطابق، یہ رقم 13 مئی 2025 کو موصول ہوئی اور 16 مئی 2025 کو ختم ہونے والے ہفتے کے زرمبادلہ ذخائر میں شامل کر دی جائے گی۔
سٹیٹ بینک نے کہا کہ یہ رقم ملکی معیشت کے استحکام میں مددگار ثابت ہوگی اور زر مبادلہ کے ذخائر میں نمایاں اضافہ کرے گی۔
پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان سٹاف لیول معاہدہ 25 مارچ کو طے پایا تھا، جبکہ سات ارب ڈالر کے قرض پروگرام کے تحت ایک ارب ڈالر پہلے ہی مل چکے ہیں۔
پروگرام کے تحت پاکستان کو 27 ستمبر کو 1.2 ڈالر کی پہلی قسط ملی تھی۔
اس کے ساتھ آئی ایم ایف نے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے بھی پاکستان کے لیے 30 کروڑ ڈالر کی قسط کی منظوری دے دی تھی۔
پاکستان 2023 میں دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچ گیا تھا، جسے آئی ایم ایف کے سات ارب ڈالر کے بیل آؤٹ نے بچایا، جس کے بعد ملکی معیشت میں بحالی دیکھی گئی، مہنگائی میں کمی آئی اور زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوا۔
لیکن اس معاہدے، جو 1958 کے بعد پاکستان کا آئی ایم ایف کے ساتھ 24 واں معاہدہ تھا، کے ساتھ سخت شرائط بھی عائد کی گئیں، جن میں آمدنی پر ٹیکس بڑھانے اور توانائی پر سبسڈی میں کمی شامل تھی، تاکہ اخراجات کو کم کیا جا سکے۔