بلوچستان: آثار قدیمہ کی حفاظت کے لیے اقدامات کا فیصلہ

وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے ٹوئٹر پر صوبے کے 100 مقامات کی ایک فہرست جاری کرتے ہوئے تین ماہ کی مدت متعین کی ہے اور اس دوران لوگوں کو اپنی آرا یا تحفظات کے اظہار کی بھی دعوت دی ہے۔

بلوچستان کے ضلع کچھی میں مہر گڑھ کے آثار قدیمہ کو قدیم ترین تہذیب مانا جاتا ہے۔  (تصویر: وکی پیڈیا)

بلوچستان اپنے وسیع جغرافیے اور تہذیبی آثار کے باعث ہمیشہ سے اہمیت کا حامل رہا ہے، یہاں کے آثار قدیمہ زمانہ قدیم کے تہذیب یافتہ انسان کا پتہ دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آثار قدیمہ کے ان مقامات کو قومی ورثہ قراردے کر ان کی حفاظت اورنوادرات کی چوری روکنے کے لیے اقدامات کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

صوبائی حکومت کے محکمہ ثقافت، سیاحت اور آثار قدیمہ نے بلوچستان اینٹی کیوٹیز ایکٹ 2014 کے تحت صوبے کے مختلف علاقوں میں تاریخی احاطوں، عمارتوں، قلعوں اور آثار قدیمہ کے مقامات  کو محفوظ ورثہ قرار دیا ہے۔

اسی تناظر میں وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے ٹوئٹر پر صوبے کے 100 مقامات کی ایک فہرست جاری کرتے ہوئے تین ماہ کی مدت متعین کی ہے اور اس دوران لوگوں کو اپنی آرا یا تحفظات کے اظہار کی بھی دعوت دی ہے۔

 

محکمہ آرکیالوجی کے ڈپٹی ڈائریکٹر آرکیالوجیکل کیوریٹر جمیل بلوچ سمجھتے ہیں کہ یہ اقدام پاکستان کی قدیم تہذیبی شناخت کے حوالے سے انتہائی اہم ہے۔ 

جمیل بلوچ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اس اقدام کا مقصد صوبے کی تاریخ کو محفوظ کرکے اسے موسمی تغیرات اور نوادرات کے تاجروں کے ہاتھ برباد ہونے سے بچانا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی علاقے کی ثقافت اور اس کی تاریخی اہمیت کا اندازہ  اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس علاقے کی تاریخ کو کتنا دریافت کیا گیا ہے۔

جمیل بلوچ کے بقول: ’آج اگر مصر خود کو دوسری قوموں سے برتر خیال کرتا ہے تو اس کی بڑی وجہ وہاں سے تاریخی آثار کی دریافت ہے جو ان کی تہذیب کو دنیا کے روبرو لائے۔‘

ماہرین کے مطابق جب تک مہر گڑھ دریافت نہیں ہوا تھا تو لوگ سمجھتے تھے کہ قدیم تہذیب کا مرکز موہنجو دڑو ہے لیکن مہر گڑھ نے تاریخ کو بدل کر رکھ دیا۔

جمیل بلوچ نے بتایا کہ ’پہلے مرحلے میں ہم صوبے کے پانچ اہم آثار قدیمہ کے مقامات کو محفوظ بنائیں گے، جن میں مہر گڑھ، میری کلات، شاہی تمپ، قلعہ چاکر اعظم اور چوکنڈی کا قبرستان شامل ہیں۔‘

واضح رہے کہ بلوچستان کے ضلع کچھی میں مہر گڑھ کے آثار قدیمہ کو قدیم ترین تہذیب مانا جاتا ہے۔ مہرگڑھ کو 1974 میں فرانسیسی ماہر آثار قدیمہ ڈاکٹر جین فرانسویس اوران کی ٹیم نے دریافت کیا تھا۔

بلوچستان کے محکمہ آرکائیوز نے جن 100 آثار قدیمہ کے مقامات کو محفوظ قرار دیا ہے یہ وہ ہیں جو مختلف ادوار میں دریافت ہوئے۔ جمیل بلوچ کے مطابق: ’بلوچستان میں ہر دو سے پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر کوئی نہ کوئی اہم تاریخی مقام موجود ہے اس لیے ہم مزید مقامات کی تلاش کے لیے سروے بھی کریں گے۔ سروے کے لیے جلد اشتہار جاری کیا جائے گا اور کسی مستند فرم یا ادارے کو بلوچستان کے آثار قدیمہ کے سروے کا کام سونپا جائے گا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے مزید بتایا کہ آثار قدیمہ کے مقامات کے حوالے سے حکومت نے 18 ملین روپے کا بجٹ رکھا تھا جن میں سے اب تک دس ملین روپے جاری ہوچکے ہیں۔ جمیل بلوچ کے مطابق: ’محفوظ مقام کا درجہ دینے کا مطلب ہے کہ پہلے اس کی فزیکلی حفاظت کی جائے، اس کے علاوہ وہاں کسی کو کھدائی کی اجازت نہیں ہوگی اور نہ ہی کوئی قبضہ کرسکے گا۔‘

قبل ازیں بلوچستان کے نوادرات نہ صرف ملکی سطح پر بلکہ بیرون ملک کی مارکیٹوں میں بھی فروخت ہوتے رہے ہیں۔ جمیل بلوچ نے بتایا: ’یہ اقدام نہ صرف آثار قدیمہ کو تحفظ فراہم کرے گا بلکہ اس سے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے اور یہاں سیاحت کو بھی فروغ ملے گا۔‘                                                               

بلوچستان میں اینٹی کیوٹیز ایکٹ کے تحت آثار قدیمہ کے مقامات کی  کھدائی اور نوادرات کی فروخت جرم ہے اور جرم کے مرتکب افراد کو تین سال قید اور پانچ سے دس لاکھ کا جرمانہ کیا جا سکتا ہے۔ جمیل بلوچ کے مطابق: ’آثار قدیمہ کے نوادرات کی چوری یا یہاں سے باہر منتقلی کے حوالے سے محکمہ متحرک ہے اور کسی بھی ایسی اطلاع پر فوری کارروائی کی جاتی ہے۔‘

جمیل بلوچ نے بتایا کہ موجودہ حکومت نے آثار قدیمہ کی حفاظت کے علاوہ قدیم آثار کی کھدائی کا فیصلہ بھی کرلیا ہے جس کے تحت رواں سال کے ابتدا میں نوشکی میں آثار قدیمہ کے مقامات پر کام شروع کیا جائے گا۔ 

ماہر آثار قدیمہ رضا بلوچ اپنی کتاب ’بلوچستان: قومی ورثوں کی تباہی‘ میں لکھتے ہیں کہ بلوچستان میں ہزاروں کی تعداد میں قدیم تہذیبی آثار و انسانی باقیات اور تاریخی یادگاریں موجود ہیں۔ 

رضا بلوچ کے مطابق: ’ثقافت کے سوداگر (کلچر مرچنٹ) بولان، دشت، گونڈین، مستونگ، قلات، خضدار، چاغی، خاران  میں تہذیبی آثار کی غیر قانونی کھدائیاں اور کاروبار کر رہے ہیں اور ایسے بہت سے واقعات موجود ہیں کہ خزانوں کی کھوج میں قدیم ٹیلوں اور مذہبی عمارتوں، مزاروں، زیارتوں کی کھدائی کی گئی اور آثار قدیمہ کو لوٹا گیا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تحقیق