امریکی دباؤ کا مقابلہ کرنے والے جنرل قاسم سلیمانی کون تھے؟

قدس فورس کے سربراہ باسٹھ سالہ میجر جنرل قاسم سلیمانی نے حزب اللہ کی اسرائیل کے ساتھ 30 دن تک جاری رہنے والی جنگ میں کلیدی کردار ادا کیا تھا۔

جمعے کوعراق کے دارالحکومت بغداد کے ایئرپورٹ کے قریب فضائی حملے میں ہلاک ہونے والے ایران کی قدس فورس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی نہ صرف ایرانی فوج کی ایک اہم شخصیت تھے بلکہ پورے خطے میں اسلامی جمہوریہ ایران کے قریب سمجھے جانے والے ملیشیا گروپوں سے تعلق کی وجہ سے بھی کافی مشہور تھے۔ خدشہ ہے کہ یہ ہلاکت خطے میں کشیدگی کو مزید ہوا دے گی۔

62 سالہ میجر جنرل قاسم سلیمانی نے حزب اللہ کی اسرائیل کے ساتھ 30 دن تک جاری رہنے والی جنگ میں کلیدی کردار ادا کیا تھا اور ان کے فوجی ایرانی مفادات کے لیے خطے کے تمام تنازعات میں پیش پیش تھے۔ وہ اکثر عراق، لبنان اور شام سفر کرتے رہتے تھے۔ وہ امریکی اور اسرائیلیوں کے خلاف ایرانیوں کے لیے مزاحمت کی علامت تھے۔

جنرل قاسم جنگوں میں ’بے معنی قتل و غارت‘ کے خلاف تھے، بعض اوقات وہ اپنے جنگجوؤں کے گلے لگ کر رویا کرتے تھے۔  

قدس فورس نے شام میں صدر بشار الاسد کی حمایت میں اپنے جنگجو تعینات کیے جبکہ 2003 میں امریکی حملے کے بعد ان کی عراق میں بھی موجودگی تھی۔

جنرل قاسم نے بشار الاسد کی جگہ خود عراق اور شام میں دولت اسلامیہ کے خلاف سرگرم تنظیموں کی رہنمائی کرکے خطے میں شہرت پائی۔ امریکی حکام کے مطابق انہوں نے اپنے جنگجوؤں کو عراق میں امریکی مداخلت کے بعد امریکی فوجیوں کے خلاف سڑکوں پر نصب کرنے والے جان لیوا بم بنانے سکھائے، تاہم ایران اس کی تردید کرتا ہے۔ ایرانیوں کی بڑی تعداد میں جنرل قاسم سلیمانی پرخلوص ہیرو کی طرح مقبول تھے جو ملک سے باہر ان کے دشمنوں کا مقابلہ کرتے تھے۔   

قاسم سلیمانی صوبہ کرمان کے شہر رابر میں پیدا ہوئے۔ ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہوں نے 13 سال کی عمر میں سکول اور گاؤں چھوڑنے کے بعد کرمان واٹر آرگنائزیشن نامی ایک تنظیم کے ساتھ ٹھیکیدار کی حیثیت سے 1975 میں کام شروع کیا۔

انقلاب ایران کے بعد وہ اعزازی فورس کے رکن بن گئے۔ قاسم سلیمانی نے اس دور اور انقلابی محافظوں میں داخلے کے آغاز کے بارے میں کہا تھا: ’ہم سب جوان تھے اور ہمیں کسی نہ کسی طور انقلاب کے لیے کام کرنا تھا اور اسی طرح میں اس فورس میں داخل ہوا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 ایران اور عراق کے درمیان آٹھ سالہ جنگ کے دوران، وہ کرمان کی ڈویژنل آرمی کے کمانڈر تھے۔ 1988 میں جنگ ختم ہونے کے بعد وہ کرمان واپس آئے اور قدس فورس کے کمانڈر کے عہدے پر تقرری ہونے تک ایران - افغان سرحد کے قریب منشیات فروش گروہوں کے خلاف لڑے۔

اسی سال یونیورسٹی میں ہونے والے واقعات میں پاسداران انقلاب کے پانچ سینیئر کمانڈروں نے صدر محمد خاتمی کو ایک خط کے ساتھ دھمکی دی تھی کہ اگر انہوں نے مزید زوردار مظاہروں کے خلاف کارروائی نہ کی تو وہ اس پر خود عمل کریں گے۔ سلیمانی ان کمانڈروں میں سے ایک تھے جنہوں نے اس ’دھمکی آمیز‘ خط پر دستخط کیے تھے۔

قاسم سلیمانی نے اگلے سال قدس فورس کی کمان سنبھال لی۔ پاسداران انقلاب کی غیرملکی شاخ نے ان کی کمان میں تقریباً دو دہائیوں تک زیادہ اہم کردار ادا کیا۔

جنرل سلیمانی کی ہلاکت کی ماضی میں بھی کئی مرتبہ افواہیں گردش میں رہی تھیں۔ ان میں 2006 میں شمال مغربی ایران میں طیارے کے ایک حادثے میں اور پھر 2012 میں دمشق میں بم حملے میں، جس میں بشار الاسد کے کئی اہم ساتھی مارے گئے تھے، ان کی ہلاکت کی بھی افواہیں تھیں۔ اس کے بعد نومبر 2015 میں بھی افواہیں گردش میں تھیں کہ سلیمانی حلب کے گرد لڑائی میں زحمی یا ہلاک ہوگئے ہیں۔  

قدس فورس کے کمانڈر کی حیثیت سے ان کی تقرری کے ابتدائی سالوں میں افغانستان کی جنگ اور وہاں وسیع پیمانے پر ایرانی عسکری موجودگی سے انہوں نے اتفاق کیا تھا۔

عراق اور شام میں ایران کی فوجی موجودگی اور شام میں بشارالاسد کی حکومت کے مخالفین اور داعش کے خلاف جنگ میں ایرانی حمایت یافتہ فورسز کے درمیان جھڑپوں کے بعد، قاسم سلیمان آہستہ آہستہ میڈیا کا ایک جانا پہچانا چہرہ بن گئے۔ ان کی عراقی اور شامی افواج کی تصاویر بین الاقوامی میڈیا میں بار بار گردش کرتی رہی تھیں، جن پر بہت سے لوگوں نے خطے میں ایرانی فوج کی سربراہی میں ان کے کلیدی کردار پر تبصرہ کیا تھا۔

لیکن بلاشبہ قاسم سلیمانی کے کردار اور اثر و رسوخ کا کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں عراق میں ایک بہت بڑا اڈہ اور موجودگی تھی۔

2008 میں نیویارک ٹائمز کے رپورٹر مائیکل گورڈن اور ایک ریٹائرڈ فوجی عہدیدار نے بتایا تھا کہ عراق میں قاسم سلیمانی کے سنجیدہ کردار کے حوالے سے دستاویزات کا ذکر کیا گیا ہے۔

نیویارک ٹائمز کے مطابق عراق پر امریکی حملے کے بعد سے وہ عراق میں ایرانی اثر و رسوخ بڑھانے کے ذمہ دار تھے۔ وہ آہستہ آہستہ عراق کے بارے میں ایرانی پالیسی کے ذمہ دار رہے۔

عراق میں اس وقت کے امریکی افواج کے کمانڈر جنرل ڈیوڈ پیٹریاس کی جانب سے امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس کو لکھے گئے خط میں عراق میں قاسم سلیمانی کے اثر و رسوخ کی طرف اشارہ کیا گیا تھا۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق 2010 میں ایک تقریر میں جنرل پیٹریاس نے قاسم سلیمانی کی جانب سے ملنے والے ایک پیغام کے حوالے سے بتایا: ’جنرل پیٹریاس، آپ کو پتہ ہونا چاہیے کہ عراق، لبنان، غزہ اور افغانستان میں ایران کی پالیسی پر میرا کنٹرول ہے۔‘

اپنی سالانہ رپورٹ میں ایک فرانسیسی میگزین نے قاسم سلیمانی کا دفاعی اور سیاست کی سرفہرست پانچ شخصیات اور مفکرین کے طور پر ذکر کیا۔ اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ ’قاسم سلیمانی 20 سال سے زیادہ عرصے سے ایران کے فوجی آپریشن کے مرکزی رہنما رہے ہیں۔ لیکن اس سارے وقت میں، ان کی حیثیت اتنی نمایاں نہیں تھی جتنی آج ہے۔۔۔ اس ایرانی کمانڈر کی موجودگی کے نشانات ان ممالک میں دیکھے جا سکتے ہیں جہاں ایران کا اثر و رسوخ ہے۔ یمن اور عراق سے شام تک یہ موجودگی ہے۔ اب قاسم سلیمانی درحقیقت ایران کے خلاف ٹرمپ کی دھمکیوں کا ردعمل ہے۔‘

قاسم سلیمانی نے متعدد مواقعوں پر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات پر سخت ردعمل کا اظہار کیا اور اپنے مشہور ترین ریمارکس میں انہوں نے امریکی صدر سے کہا: ’مسٹر ٹرمپ، میں آپ کو کہتا ہوں ہم آپ کے سوچنے سے کہیں زیادہ قریب ہیں۔ کوئی رات ایسی نہیں ہے جب ہم آپ کے بارے میں نہیں سوچتے ہیں۔‘

لیکن نئے سال کے موقع پر قاسم سلیمانی امریکی صدر کے حکم پر اور ایک ایسے ملک کی سرزمین پر مارے گئے جو خود جنگ و ہنگامے سے متاثر ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا