کیا خیبر پختونخوا میں پہلے کوئی وزیر تعلیم میٹرک پاس رہے تھے؟

اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے پچھلے حکومتی ادوار میں مختلف صوبائی وزرا تعلیم کی تعلیمی قابلیت پر نظر دوڑائی ہے۔

صوبائی وزیر اطلاعات شوکت یوسف زئی کے مطابق حالیہ تعینات  وزیر تعلیم خیبر پختونخوا  اکبر ایوب خان میٹرک پاس ضرور ہیں لیکن ان کی انگریزی بہت اچھی ہے۔  (فیس بک)

خیبر پختونخوا حکومت نے گذشتہ روز صوبائی کابینہ میں کچھ وزارتوں کے وزرا کو تبدیل کرنے کا اعلان کیا ہے۔ نئے وزرا میں وزیر تعلیم کو بھی تبدیل کر دیا گیا ہے اور میٹرک پاس اکبر ایوب خان کو  نیا وزیر تعلیم مقرر کیا گیا ہے جن کے بارے میں سوشل اور مین سٹریم میڈیا پر بحث مباحثے بھی جاری ہیں۔

ایک جانب اس فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا جا رہا ہے کہ تعلیم کی وزارت ایک میٹرک پاس وزیر کو دینا سمجھ سے بالاتر ہے لیکن دوسری جانب صوبائی وزیر اطلاعات شوکت یوسف زئی اس انتخاب کا دفاع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وزیر تعلیم میٹرک پاس ضرور ہیں لیکن ان کی انگلش بہت اچھی ہے اور جو لوگ بیرونی ممالک سے تعلیم کے شعبے میں پیسہ لگانا چاہتے ہے ان کے ساتھ وہ اچھی انگریزی میں بات کر سکیں گے۔

کیا خیبر پختونخواہ کی تاریخ میں پہلے کوئی میٹرک پاس وزیر تعلیم رہ چکے ہیں؟

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ صوبے کی تاریخ میں کیا پہلے کوئی ایسے وزیر تعلیم گزرے ہیں جو میٹرک پاس ہوں؟ اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے پچھلے حکومتی ادوار میں مختلف صوبائی وزرا تعلیم کی تعلیمی قبایلیت پر نظر دوڑائی ہے۔

ضیااللہ خان بنگش 2018 تا جنوری 2020

صوبائی حکومت کی جانب سے اکبر ایوب کووزیر تعلیم بنائے جانے سے پہلے ضیا اللہ بنگش مشیر برائے ثانوی تعلیم تھے۔ اسمبلی ویب سائٹ پر موجود معلومات کے مطابق ضیا اللہ بنگش پولیٹیکل سائنس میں ماسٹر ڈگری کر چکے ہیں۔

محمد عاطف خان 2013 تا 2018

پاکستان تحریک انصاف کے خیبر پختونخوا کے پچھلے دور حکومت میں محمد عاطف خان وزیر برائے ثانوی تعلیم تھے۔ عاطف خان نے نثار شہید کالج رسالپور سے میٹرک اور کیڈٹ کالج کوہاٹ سے انٹر کی تعلیم حاصل کی ہے۔ 2013 میں عاطف کو وزیر برائے ثانوی تعلیم مقرر کرنے پر بھی حکومت کو بہت تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا کہ ایک انٹر پاس وزیر کو تعلیم جیسی اہم وزارت دے دی گئی۔

سردار حسین بابک 2008 تا 2013

سردار حسین بابک 2008 میں عوامی نیشنل پارٹی کے سیٹ پر الیکشن جیت کر بعد میں صوبائی وزیر برائے ثانوی تعلیم مقرر کیے گئے۔ سردار بابک نے ابتدائی تعلیم آبائی گاوں میں مکمل کر کے انٹر کے لیے سائنس سپیرئیر کالج پشاور میں داخلہ لیا۔

سردار بابک نے بی اے کی ڈگری صوبے کے تاریخی اسلامیہ کالج اور شعبہ صحافت و ابلاغ عامہ میں ماسٹر کی ڈگری پشاور یونیورسٹی سے حاصل کی ہے۔

مولانا فضل حق حقانی 2002 تا 2007

سابق صوبہ سرحد میں متحدہ مجلس عمل کے دور حکومت میں مولانا فضل حق حقانی تعلیم کے وزیر تھے۔ فضل حق حقانی مدرسہ حقانیہ سے فارغ التحصیل تھے اور ماسٹرز لیول کی تین ڈگریاں حاصل کر چکے تھے۔

امتیاز حسین گیلانی 1999 تا 2002

صوبے کے چند اعلٰی تعلیم یافتہ وزرائے تعلیم میں ایک نام امتیاز حسین گیلانی کا ہے۔ امتیاز حسین 1999  سے 2002 تک پرویز مشرف کے دور حکومت میں سابقہ صوبہ سرحد کے وزیر تعلیم تھے۔ امتیاز گیلانی کوہاٹ میں پیدا ہوئے اور پشاور کے انجینئرنگ یونیورسٹی سے انہوں نے سول انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی۔ وہ انجینئرنگ یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی رہ چکے ہیں۔

انھوں نے انجئنیرنگ کے شعبے میں ماسٹرز کی ڈگری بنکاک کے ایشین انسٹیٹوٹ آف ٹیکنالوجی سے حاصل کی۔ امتیاز حسین 2004  سے 2013  تک ہائر ایجوکیشن کمیشن کے چئیر مین بھی رہے۔

پروفیسر ہاشم خان 1997 تا 1999

پروفسیر ہاشم خان پیشے کے لحاظ سے استاد تھے اور پشاور یونیورسٹی کے وائس چانسلر بھی رہ  چکے ہیں۔ وہ نواز شریف کے دور حکومت میں صوبہ سرحد کے وزیر تعلیم تھے۔

افتخار خان جھگڑا 1993 تا 1997

پاکستان پیپلز پارٹی کے سرکردہ رہنما افتخار خان جھگڑا  1993 سے 1997 تک صوبائی وزیر تعلیم رہ چکے ہیں۔ عبدالولی خان یونیورسٹی کے پروفیسر سہیل خان کے مطابق افتخار جھگڑا نے بیچلر ڈگری حاصل کی تھی۔

محمد یوسف ترند  1988 تا 1993 

پروفیسر سہیل خان عبدالولی خان یونیورسٹی میں استاد ہیں اور خیبر پختونخوا کے تعلیمی نظام پر تحقیقاتی مقالے شائع کر چکے ہیں۔ سہیل خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ 1988 میں جب خیبر پختونخوا میں پیپلز پارٹی کی حکومت آئی تو پرائمری پاس یوسف ترند کو وزیر تعلیم مقرر کیا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

1988 سے 1990 کے زمانے میں صوبے میں خواجہ محمد خان  ہوتی اور ولی محمد خان بھی وزیر تعلیم رہ چکےہیں۔ ولی محمد خان پیشے کے لحاظ سے وکیل تھے جبکہ خواجہ محمد خان نے بیچلر ڈگری حاصل کی تھی۔

 یوسف ترند کا تعلق خیبر پختونخوا کے ضلع بٹگرام سے ہے اور 2013 کے اتخابات سے پہلے وہ پی ٹی آئی میں شامل ہوگئے تھے۔ موجودہ صوبائی حکومت میں یوسف ترند کے بیٹے تاج محمد خان ترند بھی شامل ہیں جنہیں گزشتہ روز مشیر برائے جیل جانہ جات مقرر کیا گیا۔

اس دور کی ایک اخباری رپورٹ کے مطابق یوسف ترند کو  بدعنوانی کے ایک مقدمے میں جب عدالت کے سامنے پیش کیا گیا توانھوں نے بتایا کہ چونکہ وہ ان پڑھ ہیں اس وجہ سے انہیں پتہ نہیں تھا کہ ان کے افسران ان سے کن کاغذات پر دستخط کرواتے ہیں۔

میاں جعفر شاہ 1951 تا 1955

ایک تحقیقی مقالے کے مطابق تقسیم ہند کے بعد میاں جعفر شاہ کو 1951 میں خیبر پختونخواہ کا وزیر تعلیم مقرر کیا گیا۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم اسلامیہ کالج سے حاصل کی تھی لیکن  باقاعدہ طور پر کوئی ڈگری ان کے پاس موجود نہیں تھی۔ان کا تعلق نوشہرہ کے کاکاخیل قبیلے سے تھا۔

1947 سے قبل کے وزرا کی تعلیمی ڈگریاں

سر سعداللہ خان  اپریل 1937  تا اگست 1937 

پروفیسر سہیل خان کے مطابق سر سعد اللہ خان چارسدہ کے عمرزئی علاقے سے تعلق رکھتے تھے اور ان کو مسلم لیگ کے صاحبزادہ عبدالقیوم خان کے دور میں وزیر تعلیم بنایا گیا تھا۔ سر سعداللہ خان کولکتہ کالج سے بیچلر ڈگری حاصل کر چکے تھے۔

بیرسٹر قاضی عطااللہ  1937 

قاضی عطااللہ کانگریس کے سرکردہ رہنما تھے جو 1937 میں اس وقت صوبہ سرحد کے وزیر تعلیم مقرر کیے گئے جب خان عبدالجبار خان جو ڈاکٹر خان صاحب کے نام سے جانے جاتے ہیں، وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔

قاضی عطااللہ کو ڈاکٹر خان صاحب ہی کی حکومت میں 1946  میں دوبارہ وزیر تعلیم مقرر کیا گیا۔ قاضی عطااللہ نے علی گڑھ یونیورسٹی سے قانون کی ڈگری حاصل کی تھی۔

کیا وزیر تعلیم کے لیے تعلیمی قابلیت ضروری ہے؟

اس سوال کے جواب میں پروفسیر سہیل خان کا کہنا تھا کہ تعلیم اور صحت دو ایسی وزراتیں ہیں جو لوگوں کے ساتھ جڑی ہوئی ہیں اور ان کی فلاح کے لیے مختلف پالیسیز بناتی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’اگر ایک وزیر پالیسی کو درست طریقے سے پڑھ نہیں سکتے تو وہ پالیسی بنائیں گے کیسے؟ ایسے شعبوں کے لیے تعلیم یافتہ لوگ وزیر بنائے جائیں گے تو وہ عوام کے لیے بہتر طریقے سے پالیسی مرتب کریں گے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان