کیا ایشیا کے کرکٹ بورڈز کبھی حکومتی اثر سے نکل پائیں گے؟

بنگلہ دیش نے اپنی حکومت کے کہنے پر پاکستان کے ساتھ ٹیسٹ سیریز فی الحال کھیلنے سے انکار کردیا ہے۔

بنگلہ دیش بضد ہے کہ پہلے ٹی ٹوئنٹی میچ کھیلے جائیں اور بعد میں ٹیسٹ سیریز کے بارے میں سوچا جائے(اے ایف پی)

بنگلہ دیش نے پاکستان کے ساتھ آئی سی سی ٹیسٹ چیمپیئن شپ کے سلسلے کی ٹیسٹ سیریز فی الحال کھیلنے سے انکار کردیا ہے۔

بنگلہ دیش بضد ہے کہ پہلے ٹی ٹوئنٹی میچ کھیلے جائیں اور بعد میں ٹیسٹ سیریز کے بارے میں سوچا جائے۔ بنگلہ دیشی کرکٹ بورڈ کے مطابق، حکومت نے انھیں صرف پاکستان کے ’مختصر‘ دورے کی اجازت دی ہے۔

بنگلہ دیش نے پہلی مرتبہ انکار نہیں کیا بلکہ ماضی میں کئی مرتبہ وہ پاکستان میں کھیلنے سے انکار کر چکا ہے۔

ایشیا کے پانچ ملک پاکستان، بھارت، سری لنکا، بنگلہ دیش اور افغانستان ٹیسٹ کرکٹ کھیلنے کا حق رکھتے ہیں۔

افغانستان کرکٹ بورڈ تو خیر نوزائیدہ ہے لیکن بقیہ چاروں ملکوں کے درمیان کرکٹ تعلقات ماضی میں اتار چڑھاؤ کا شکار رہے ہیں اور سب سے زیادہ اتار چڑھاؤ پاکستان اور بھارت کے درمیان نظر آتا ہے کیونکہ دونوں ٹیموں کے درمیان 13 سال سے باہمی سیریز نہیں کھیلی گئی۔

آخری دفعہ پاکستان نے 2006 میں بھارت کا دورہ کیا تھا۔

بھارتی کرکٹ باسز کے رویوں میں اس قدر نفرت ہے کہ آئی سی سی کے کئی ایونٹس بھی بائیکاٹ کے خطرات سے دوچار ہو چکے ہیں۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان 2017 کی چیمپیئنز ٹرافی کے گروپ میچ کے لیے تو کئی بڑے سابق بھارتی کرکٹرز تک بائیکاٹ پر زور دے رہے تھے۔

تاہم لٹل ماسٹر سچن تندولکر اور سابق لیگ سپنر انیل کمبلے کے سخت موقف کے بعد وہ خاموش ہوئے۔ دونوں نے اس بائیکاٹ کو حماقت سے تعبیر کرتے ہوئے بھارت پر میچ کھیلنے پر زور دیا تھا۔

کرکٹ کے کھیل میں حکومتوں کی مداخلت صرف کھیلنے یا نہ کھیلنے تک محدود نہیں بلکہ بورڈز کی تشکیل اور عہدے داروں کے انتخاب تک ہوتی ہے۔

بھارتی کرکٹ بورڈ کے سابق صدر شرد پوار نے تو اعتراف کیا تھا کہ حکومت عہدے داروں کے انتخاب میں ڈکٹیٹ کرتی ہے اور من پسند لوگوں کو بڑے عہدوں پر دیکھنا چاہتی ہے۔

سری لنکا میں کرکٹ بورڈ کے معاملات میں اس قدر مداخلت ہے کہ زیادہ تر عہدے دار وہی ہوتے ہیں جو حکومتی پارٹی کے اسمبلی ارکان یا عہدے دار ہوتے ہیں۔

حکومتی مداخلت پر ہی کمارا سنگاکارا اور مہیلا جے وردھنے جیسے بڑے کرکٹرز نے کپتانی چھوڑی اور 1996 ورلڈ کپ کپتان ارجنا راناتنگے اس مسئلے پر بورڈ سے کئی بار لاتعلقی اختیار کرچکے ہیں۔

سری لنکا کے ایک صدر تو عملاً کرکٹ بورڈ چلارہے تھے جس پر آئی سی سی نے بھی تشویش کا اظہار کیا تھا۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پاکستان کرکٹ بورڈ کا حال بھی مختلف نہیں۔ ماضی میں تمام چیئرمین نامزد تھے اور اکثر کرکٹ کے بارے میں اتنا ہی جانتے تھے جتنا ایک پاکستانی چینی زبان جانتا ہے۔

ایک چیئرمین نے تو انضمام الحق کو ایک تقریب میں گوجرانوالہ کا ریسلر سمجھ کر ان کی کشتی کی تعریف کر ڈالی تھی۔

موجودہ وزیر اعظم عمران خان نے ماضی میں ہمیشہ کرکٹ بورڈ کے بڑے عہدوں پر نامزدگی پر ناراضی ظاہر کی تھی اور کسی سابق کرکٹر کو ہی چیئرمین بنانے کا مطالبہ کرتے تھے۔

ایک دفعہ پی سی بی کے ایک چیئرمین کو عمران خان نے ڈریسنگ روم سے یہ کہہ کر باہر نکال دیا تھا کہ ’آپ کو کرکٹ کا کیا پتہ، آپ کا یہاں کیا کام ہے‘؟ 

تاہم جب موقع ملا تو عمران خان وزیر اعظم بنے تو انھوں  نے بھی بورڈ میں نامزدگی کی روایت باقی رکھی اور بجائے جمہوری انداز میں صدر چننے کے، انگلینڈ کے شہری احسان مانی کو چیئرمین بنا دیا۔

یہ الگ بات ہے کہ موجودہ اور ماضی کے تمام چیئرمین خودکو گورننگ باڈی سے منظور کراتے رہے تاکہ آئی سی سی کو مطمئن کیا جاسکے کہ بورڈ چیئرمین جمہوری انداز میں منتخب ہوا ہے۔

ماضی میں صرف عبدالحفیظ کاردار واحد چیئرمین تھے جو سابق کرکٹر تھے لیکن ان کو بھی نامزد کیا گیا تھا۔

بھارتی بورڈ کی سربراہی اس وقت بھارت کے سب سے کامیاب کپتان سارو گنگولی کے ہاتھ میں ہے۔ ’دادا‘ کے نام سے مشہور گنگولی کا تعلق بنگال سے ہے جس کی بورڈ پر برسوں حکمرانی رہی۔

بنگال کے مرد آہن جگموہن ڈالمیا پانچ سال تک بورڈ کے صدر رہے اور جہاں بھارتی بورڈ میں بنگال کا اثر رسوخ مضبوط کیا وہی گنگولی کو بنگال کرکٹ بورڈ کا صدر بنوانے میں پیش پیش تھے۔

گنگولی اگرچہ جمہوری انداز میں منتخب ہوئے ہیں لیکن قرائن بتاتے ہیں کہ بھارتی حکومت نے ان کی جیت کے لیے علاقائی کرکٹ ایسوسی ایشنز پر دباؤ ڈالا اور ان کو بلامقابلہ منتخب کروایا۔

بھارتی وزیر داخلہ امت شاہ کے بیٹے جے شاہ کی سیکریٹری کے عہدے پر نامزدگی ہی ان کی جیت کی ضامن بنی یعنی کچھ لو کچھ دو کا معاہدہ ہوا۔

گنگولی سے پہلے بھی بھارتی بورڈ  حکومتی مداخلت کا شکار رہا ہے۔ بنگلہ دیش بورڈ کی قیادت بھی حکومت کی منظوری سے بنتی ہے۔ ان کے موجودہ چیئرمین اگرچہ کرکٹ کھیل چکے ہیں لیکن موجودہ حکومت کے رکن پارلیمنٹ ہیں اور خاصے متنازع انداز میں بلامقابلہ منتخب ہوئے تھے۔ بنگلہ دیش بورڈ روز اول سے حکومتی ڈکٹیشن پر چل رہا ہے۔

آئی سی سی چیمپیئن شپ کے سلسلے میں بنگلہ دیش کو پاکستان میں دو ٹیسٹ کھیلنا ہیں لیکن بنگلہ دیش بورڈ لیت ولعل سے کام لے رہا ہے۔ 

پچھلے دسمبر سے وہ اس دورے کو ٹالنے کی کوشش کر رہا ہے اور واضح طور پر کوئی جواب نہیں دے رہا۔

بنگلہ دیش بورڈ کے لیے سب سے اہم اس کی ٹی ٹوئنٹی کرکٹ لیگ ہے جس میں پاکستان کے کئی سٹار کھلاڑی حصہ لے رہے ہیں اور ان کھلاڑیوں کی وجہ سے فرنچائزز کو اشتہارات کی مد میں آمدنی ہوتی ہے۔

بورڈ کی کوشش ہے کہ جب تک لیگ ختم نہیں ہو جاتی پاکستان بورڈ کو کوئی حتمی جواب نہ دیا جائے، ورنہ پاکستان اپنے کھلاڑی واپس بلا سکتا ہے۔

وہ اپنی اس حکمت عملی میں کامیاب رہا ہے اور اب جبکہ لیگ اپنے اختتام کو پہنچ رہی ہے تو اس کا ’مختصر‘ دورے پر مبنی جواب بھی سامنے آ گیا ہے۔ 

بنگلہ دیش کے پاکستان کے ساتھ ٹیسٹ نہ کھیلنے کی کوئی وجہ تو نظر نہیں آتی، لیکن بورڈ کے اندرونی معاملات پر نظر رکھنے والے کہتے ہیں کہ یہ انکار بورڈ کا اپنا فیصلہ نہیں بلکہ بھارتی حکومت کا بنگلہ دیش حکومت پر مبینہ دباؤ ہے، جو پاکستان کو کرکٹ کے میدان میں تنہا کرنے کے ایجنڈے پر کام کررہا ہے۔

ماضی میں سری لنکا پر بھی بہت دباؤ ڈالا گیا لیکن سری لنکن حکومت نے دورہ منسوخ کرنے سے معذوری ظاہر کردی تھی۔

بنگلہ دیش کی مجبوری یہ ہے کہ اس کی کروڑوں ڈالرز کمانے والی ٹی ٹوئنٹی لیگ میں بھارتی سرمایہ لگا ہوا ہے جو بھارتی حکومت کو ناراض کرنے سے ڈوب سکتا ہے۔ 

بنگلہ دیش ہو، بھارت یا پھر کوئی اور بورڈ لیکن سب کا ایک ہی مسئلہ ہے کہ یہ خود مختار نہیں ہیں اور حکومتی اشاروں پر چلتے ہیں۔ ان کے غیر حقیقی فیصلوں سے کرکٹ کھیل کی بجائے میدان جنگ بن چکی ہے۔

کیا ایشیا کے یہ بورڈز انگلینڈ اور آسٹریلوی بورڈز سے سبق نہیں سیکھ سکتے، جہاں بورڈ عملاً آزاد ہیں اور اپنے فیصلے خود کرتے ہیں۔ 

کیا ایشیائی ممالک کی حکومتیں کبھی اپنے کرکٹ بورڈز کو آزاد کریں گی؟ جس کے بعد وہ اپنے معاملات خود طے کرسکیں ؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب شاید ہمیشہ نفی میں ملے گا؟

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ