فرانسیسی خواتین، جنھوں نے سیلون کے ذریعے تہذیب کو فروغ دیا

فرانسیسی انقلاب سے پہلے خواتین کے قائم کردہ سیلونوں نے روشن خیالی کی تحریک کو فروغ دیا۔ یہاں صرف ادبی اور فلسفیانہ موضوعات پر بحث و مباحثے نہیں ہوتے تھے بلکہ آداب کی بھی تربیت ہوتی تھی۔

مادام پومپادور جن کے سیلون میں بہت سے مشاہیر جمع ہوتے تھے (پبلک ڈومین)

شاعروں، ادیبوں، مصوروں، فلسفیوں اور سائنس دانوں کے لیے یہ لازمی ہے کہ ان میں باہمی ملاقات ہو تاکہ وہ اپنے خیالات و افکار کا آپس میں تبادلہ کر سکیں۔

انگلستان میں اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے کافی ہاؤس تھے جو دانش وروں کے ملنے کے مراکز تھے۔ اس کے علاوہ مختلف سماجی کلب تھے جہاں دانش ور باہمی مل کر بیٹھتے تھے اور ایک دوسرے سے مستفید ہوتے تھے لیکن کافی ہاؤس اور کلبوں میں عورتیں نہیں آتی تھیں، یہ مردوں کے لیے مخصوص تھے۔

فرانس میں پیرس کا شہر 18ویں صدی میں علمی، ادبی اور فلسفیانہ خیالات کی وجہ سے مشہور تھا۔ چرچ اور ریاست کی پابندیوں کے باوجود فرانسیسی دانش ور اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے پرانی روایات کو چیلنج کر رہے تھے، کیونکہ یہاں لندن کی طرح کافی ہاؤس دانش وروں کے مراکز نہیں بنے تھے اس لیے فرانس کی امرا خواتین نے اس کا متبادل پیش کیا جو سیلون کی شکل میں تھا۔

امرا کی خواتین کے ساتھ ساتھ روشن خیال دانش وروں کی سرپرستی بادشاہ لوئی مسٹرس میڈم پمپی دور کرتی تھیں جو نہ صرف ان کی مالی مدد کرتی تھیں بلکہ انھیں ریاستی اور چرچ کی پابندیوں سے بھی چھڑائی تھیں۔

امرا کی خواتین نے اپنی حویلیوں میں دانش وروں اور علمی شخصیتوں کو دعوت دینے کا سلسلہ شروع کیا جس کی وجہ سے ان کی سرپرستی میں چلنے والے یہ سیلون تاریخ میں مشہور ہو گئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فرانسیسی انقلاب سے پہلے امرا خواتین کے قائم کردہ سیلونوں نے روشن خیالی کی تحریک کو فروغ دیا۔ یہاں صرف ادبی اور فلسفیانہ موضوعات پر بحث و مباحثے نہیں ہوتے تھے، بلکہ ادب و آداب، گفتگو کے فن اور اٹھنے بیٹھنے کے آداب کی بھی تربیت ہوتی تھی۔

جو خواتین ان سیلونوں کا انتظام اور دیکھ بھال کرتی تھیں وہ خود بھی پڑی لکھی، مہذب اور شائستہ ہوتی تھیں۔ گفتگو کے فن سے پوری طرح واقف تھیں اور محفل میں ہونے والی بحث و مباحثے کو کنٹرول کرتی تھیں۔ محفل میں آنے والے دانش وروں کے ساتھ عزت و احترام کے ساتھ پیش آتی تھیں۔ ان محفلوں کے اخراجات بھی وہ خود اٹھاتی تھیں۔

اس لیے پیرس کے علاوہ دوسرے شہروں کے دانش ور بھی ان میں شرکت کے لیے آتے تھے۔ ان سیلونوں نے فرانس کے دانش وروں کے لیے ایسے مراکز قائم کیے کہ جہاں وہ آزادی کے ساتھ گفتگو کر سکتے تھے۔ یہ حالات حاضرہ کے علاوہ ماضی کے واقعات کا بھی تجزیہ کرتے تھے۔ علم و ادب، مصوری اور تعمیرات میں جو تبدیلیاں آرہی تھیں وہ بھی زیر بحث ہوتی تھیں۔

فرانس کی تاریخ میں ان سیلونوں کے بارے میں مختلف آرا ہیں چونکہ منظم کرنے والی امرا کی خواتین ہوتی تھیں اس لیے دلیل دی جاتی ہے کہ ان کا دائرہ محدود تھا، لیکن اس کے برعکس کچھ مورخ اس کی جانب اشارہ کرتے ہیں کہ ایک ایسے ماحول میں کہ جہاں چرچ کی جانب سے خیالات کے اظہار پر سخت پابندیاں تھیں اور ریاست بھی روشن خیالی کی تحریک کے خلاف مزاحمت کرتی رہتی تھی۔ سنسر شپ کے سخت قوانین تھے، خلاف ورزی پر دانش وروں کو قید کی سزائیں بھی دی جاتی تھیں۔ والٹیر اور دیداو دونوں کو اپنی تحریروں کی وجہ سے جیل جانا پڑا تھا، وہاں ان حالات میں یہ سیلون فرانسیسی دانش وروں کو موقع دیتے تھے کہ ان محفلوں میں شریک ہو کر وہ آزادی کے ساتھ روایات اور اداروں پر تنقید کر سکیں، لہٰذا ان مراکز نے فرانس کے علمی و ادبی افکار کو پیش کرکے سوسائٹی کی اشرافیہ کو ذہنی طور پر متاثر کیا۔

فرانس کی پانچ خواتین کے سیلون مشہور تھے۔ جن میں مادار جیو ہرن جن کا سیلون سب سے زیادہ مشہور تھا، یہاں فرانس کے مشہور دانش ور جمع ہوتے تھے۔ اس سیلون کی سرگرمیاں 1750-1777 تک جاری رہی۔ کلیندین جی دے تین سین خاتون بحیثیت ناول نگار کے مشہور ہوئیں اور جب انھوں نے اپنا سیلون قائم کیا تو ان کی سحر انگیز شخصیت کی وجہ سے وہ دانش وروں کا مرکز بن گیا۔

ژنے کوینو اداکارہ اور مصنفہ تھیں ان کے سیلون میں دانش وروں کے علاوہ تھیٹر سے تعلق رکھنے والے افراد بھی آتے تھے۔ یہ خود بھی ڈراموں میں ایکٹنگ کرتی تھی۔ مادام دوپاں اپنی خوبصورتی کی وجہ سے مشہور تھیں اور ادیبوں اور شاعروں کی محفلوں کا انعقاد کرتی تھیں۔

روشن خیالی کی تحریک کے مشہور دانش ور ان کے سیلون میں جمع ہوتے تھے۔ فرانسوا دے گریفنی اپنے وقت کی مشہور مصنفہ تھیں۔ ان کے قائم کردہ سیلون کی بھی اگرچہ بہت اہمیت تو نہیں تھی، مگر پھر بھی ان کے ادبی تعلقات کی وجہ سے ادیب و شاعر ان کے ہاں جمع ہو جاتے تھے۔

مشہور دانش ور جو ان سیلونوں میں شرکت کرتے تھے ان میں روسو، دیدورو، ایڈم سمتھ اور ایڈورڈ گبن جیسے دانش ور شامل تھے۔ اس کے علاوہ یورپی ملکوں کے دانش ور جب بھی پیرس آتے تو ان سیلونوں میں شریک ہو کر فرانسیسی دانش وروں سے دوستیاں کرتے تھے اور یوں ایک دوسرے سے فیض یاب ہوتے تھے۔

فرانسیسی انقلاب کے بعد جب بادشاہت کا خاتمہ ہوا اور ساتھ ہی امرا کے طبقے کو بھی زوال ہوا تو اس نئے ماحول میں امرا کی عورتیں اس قابل نہیں رہیں کہ وہ سیلون کی روایت کو برقرار رکھ سکیں۔

انقلاب نے دانش وروں کو بھی انتشار کا نشانہ بنا دیا۔ بعد میں جب پیرس میں کافی ہاؤسز کا رواج ہوا تو انھوں نے سیلون کی جگہ لے کر دانش وروں، مصوروں اور سائنس دانوں کو یہاں جمع ہونے کا موقع دیا۔ لندن کی طرح پیرس کے کافی ہاؤسز بھی ادبی اور علمی شہرت کے حامل ہو گئے۔ خاص تبدیلی یہ آئی کہ انقلاب سے پہلے کے سیلون اشرافیہ کے مراکز تھے، مگر اب کافی ہاؤسز کے دروازے امیر و غریب دانش وروں کے لیے کھل گئے اور انھوں نے اپنی تخلیقات سے فرانس کے معاشرے کو متاثر کیا۔

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جب بھی ماحول بدلتا ہے تو پرانے اداروں کی جگہ نئے ادارے جنم لیتے ہیں اور معاشرے کی ضرورتوں کو پورا کرتے ہیں، لیکن ہمیں یہ فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ سیلون کو منعقد کرنے والی امرا کی خواتین تھیں، مگر ان کا یہ کارنامہ ہے کہ انھوں نے گُھٹے ہوئے ماحول میں آزاد خیالی کی سرپرستی کی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی تاریخ