چین میں پراسرار وائرس کے 140 نئے کیس

اس وائرس سے تین ہلاکتیں ہو چکی ہیں جبکہ ماہرین صحت ابھی تک اس سارس قسم کے وائرس کی نئی لہر کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

یہ وائرس سب سے پہلے ووہان میں شناخت کیا گیا تھا(اے ایف پی)

چین میں پراسرار کورونا وائرس کے پھیلنے سے تیسری ہلاکت کے بعد 140 نئے کیس رجسٹر سامنے آئے ہیں۔

بیجنگ کے ڈیکسنگ ہیلتھ کمیشن نے دو نئے کورونا وائرس کیسز جب کہ گوانگ ڈونگ صوبے نے ایک نئے کیس کی تصدیق کی ہے، جو ووہان کے علاقے سے باہر اس وائرس کے پھیلنے کے پہلے واقعات ہیں۔

یہ وائرس سب سے پہلے ووہان میں شناخت کیا گیا تھا۔ ووہان میونسپل ہیلتھ کمیشن نے ایک بیان میں کہا کہ ہفتے اور اتوار کو شہر میں کورونا وائرس کے 136 نئے کیس سامنے آئے۔

اس وائرس کے دو کیس تھائی لینڈ اور ایک کیس جاپان میں بھی سامنے آیا ہے، جہاں یہ ووہان سے سفر کرنے والے افراد میں پایا گیا تھا۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اس انفیکشن سے اب تک تین افراد کی ہلاکت ہو چکی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ماہرین صحت ابھی تک اس سارس قسم کے وائرس کی نئی لہر کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ تاہم اس کے منتقل ہونے کا نقشہ ابھی تک مکمل نہیں کیا جا سکا اور اس کا ذریعہ بھی تاحال نامعلوم ہے۔

چین کے قومی صحت کمیشن نے اتوار کو زور دیا کہ وائرس کی اس لہر پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

نئے قمری سال میں اس حوالے سے نگرانی کا موثر نظام وضع کیا جا رہا ہے۔ نئے سال کی تقریبات کے سلسلے میں لاکھوں چینی شہری بیرون ملک سفر کریں گے۔

عالمی ادارہ صحت نے اتوار کو ایک ٹویٹ میں کہا کہ نئے کیسز ہوانان سمندری خوراک مارکیٹ ووہان سے تعلق رکھتے ہیں جس کو اس وائرس کے پھیلاؤ کا مرکز قرار دیا جا رہا ہے۔

ٹویٹ میں مزید کہا گیا کہ چین کی جانب سے سکرینگ کے وسیع نظام کے باعث آنے والے دنوں اور ہفتوں میں اس وائرس کے نئے کیس سامنے آسکتے ہیں۔

چائنیز یونیورسٹی آف ہانگ کانگ میں سانس کی بیماریوں کے پروفیسر ڈیوڈ ہوئی کا کہنا ہے کہ تھائی لینڈ اور جاپان میں ہوانان سمندری خوراک مارکیٹ سے تعلق رکھنے والے تین کیسوں کا سامنے آنا ثابت کرتا ہے کہ یہ وائرس ہوانان سے باہر لوگوں میں پھیل چکا ہے۔

سرکاری میڈیا نےاتوار کو ووہان کے ڈپٹی میئر چین یان شن کے حوالے سے رپورٹ کیا کہ ووہان بڑی تقریبات اور عوامی اجتماع کی سرگرمیوں کو کم کرنے کی کوشش کرے گا تاکہ موثر نگرانی کی جا سکے۔

(اضافی رپورٹنگ ایجنسیوں کی جانب سے)

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی صحت