پنجاب میں طلبہ صحت سوالنامہ: جنسی سوالات پر سب برہم

ہائر ایجوکیشن پنجاب کے مطابق ذوالفقار علی نامی شہری کی جانب سے چند ماہ پہلےلاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی گئی تھی جس پر عدالت نے طلبہ کا مکمل میڈیکل ریکارڈ جمع کرنے کا حکم دیاتھا۔

پنجاب میں پہلی بار محکمہ ہائرایجوکیشن نے پرفارموں کے ذریعے طلبہ کا میڈیکل ریکارڈ جمع کرنے کا عمل شروع کردیا۔(انڈپینڈنٹ اردو)

صوبہ پنجاب میں محکمہ ہائرایجوکیشن کی جانب سے کالج اور یونیورسٹیوں کے طلبا وطالبات کا میڈیکل ریکارڈ جمع کرنے کے لیے سوال نامے جاری کیے گئے۔ اس سوال نامے کی آخری شق میں پوچھا گیا ہے کہ طلبہ اپنے جنسی تعلقات اور کلاس میں چوری یا تاخیر سے آنے کا ریکارڈ بھی درج کریں جس پر ٹیچرز کی تنظیم تحریک اساتذہ پنجاب اور بیشتر طلبا وطالبات نے شدید رد عمل کا اظہار کیا۔

انہوں نے سوال نامے  میں پوچھے گئے سوالات کو مسترد کردیا اور پرفارمے جمع کرانے سے انکارکر دیا۔
اطلاعات کے مطابق ہائرایجوکیشن محکمے نے مدعا محکمہ صحت پر ڈال دیا ہے۔ ایڈیشنل سیکرٹری محکمہ ہائرایجوکیشن طارق حمید بھٹی کاکہناہے کہ سوال نامے میں شامل قابل اعتراض شق کا دوبارہ جائزہ لیا جائے گا، اگر واقعی سوالات قابل اعتراض ہوئے تو حذف کر دیے جائیں گے۔
طلبہ کے ہیلتھ پرفارما کا اجرا کیوں ہوا؟ 

ہائر ایجوکیشن پنجاب کے مطابق ذوالفقار علی نامی شہری کی جانب سے چند ماہ پہلے لاہور ہائیکورٹ میں درخواست دائر کی گئی تھی جس پر عدالت نے طلبہ کا مکمل میڈیکل ریکارڈ جمع کرنے کا حکم دیا تھا۔ تفصیلات کے مطابق پنجاب کی تمام یونیورسٹیوں اور کالجوں کے طلبہ و طالبات کے دیگر ذاتی کوائف کے ساتھ میڈیکل ریکارڈ بھی جمع کیا جانا تھا جس کے لیے پنجاب میں پہلی بار محکمہ ہائر ایجوکیشن نے پرفارموں کے ذریعے طلبہ کا میڈیکل ریکارڈ جمع کرنے کا عمل شروع کر دیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جب یہ پرفارمے متعلقہ اداروں میں پہنچے تو مبینہ طور پرطلبہ نے جنسی تعلقات سے متعلق معلومات دینے اور چوری کرنے یا کلاسوں میں تاخیر سے آنے کی وجوہات فراہم کرنے کی شقوں پر غم وغصے کا اظہار کیا۔ اساتذہ نے بھی اس عمل کو اسلامی نظریات کے منافی قراردے کر مسترد کردیا۔
تحریک اساتذہ پنجاب کے جنرل سیکرٹری جنید احمد خان نے انڈپینڈنٹ اردوسے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہائرایجوکیشن کی جانب سے جاری کیے گئے پرفارما میں طلبہ وطالبات سے جنسی تعلقات کا ریکارڈ اور کلاسوں میں چوری سمیت تاخیر سے آنے کا ریکارڈ مانگا گیا ہے جو اسلامی تعلیمات کے خلاف ہے، کیوں کہ لڑکے اور لڑکیوں سے اس طرح کی معلومات مانگنا شرمناک ہے اور ان کے کردار پر سوال اٹھانا بھی بعید از تہذیب عمل ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ کیسے پوچھا جاسکتاہے کہ وہ جنسی عمل میں کتنی بار ملوث رہے اور کلاس میں چوری کتنی مرتبہ کی؟ انہوں نے کہا کہ وہ طلبہ کے میڈیکل ریکارڈ جمع کرنے کے خلاف نہیں لیکن اس طرح کے ناشائستہ جنسی تعلقات سے متعلق سوالات کو مسترد کرتے ہیں۔ لہذا جب تک ان سوالات کو حذف نہیں کیا جاتا، وہ پرفارمے جمع نہیں کروائیں گے۔

ایم اے او کالج کی طالبہ مہرین (فرضی نام) نے انڈپینڈنٹ اردوسے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ کالج انتظامیہ کی جانب سے میڈیکل ریکارڈ سے متعلق دیے گئے پرفارمے میں بے ہودہ سوالات پوچھے گئے ہیں اس لیے ہم نے وہ پر نہیں کیے اور نہ ہی جمع کروائے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس بارے میں انتظامیہ سے شکایات کی ہیں کہ جب تک ایسے سوالات نکالے نہیں جاتے وہ میڈیکل سے متعلق معلومات فراہم نہیں کریں گی۔ ان کا موقف تھا کہ ان سوالات سے طلبہ و طالبات کے کردار کو مشکوک بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔
ہائر ایجوکیشن نے سوال نامے کی ذمہ داری محکمہ صحت پر ڈال دی
محکمہ ہائر ایجوکیشن پنجاب کے ایڈیشنل سیکرٹری طارق حمید بھٹی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ لاہور ہائی کورٹ کے حکم پر طلبہ سے دیگر معلومات کے ساتھ ان کا میڈیکل ریکارڈ جمع کرنے کے لیے تین صفحات پر مشتمل سوال نامے کالجوں اور یونیورسٹیوں کو جاری کیے گئے ہیں جن میں میڈیکل معلومات سے متعلق سوالات محکمہ صحت نے شامل کیے ہیں۔ ہم نے وہ سوالات ایسے ہی پرفارموں میں پرنٹ کروائے جیسے محکمہ صحت حکام نے بھجوائے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ان پرفاموں میں شامل قابل اعتراض سوالات پر دوبارہ غور کر سکتے ہیں اور اگر واقعی یہ اعتراضات میرٹ پر ہوئے تو یہ سوالات پرفاموں سے حذف کر دیے جائیں گے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان