ہاتھ کا بنا قالین، جتنا پرانا اتنا مہنگا

کوئٹہ میں قالینوں کا کاروبار کرنے والے دکان دار کہتے ہیں کہ مہنگائی اور کاریگروں کی کمی کے باعث اب ہاتھ سے بنے قالینوں کی فروخت میں کمی آئی ہے۔

کسی زمانے میں بلوچستان کے ہر دوسرے گھر میں ہاتھ سے قالین بنائے جاتے تھے اور گھروں کی زینت بننے والے ان قالینوں میں گھر کی خواتین کا ہنر خوب جھلکتا تھا۔

پہلے پہل کوئٹہ میں ہاتھ سے بنے قالین فروخت کرنے والوں کی بڑی تعداد موجود تھی اور ان دکانوں سے نہ صرف مقامی بلکہ ملکی اور دنیا بھر سے سیاح خریداری کرتے تھے، تاہم اب اس رجحان میں کمی آگئی ہے۔

قالینوں کا کاروبار کرنے والے دکان دار کہتے ہیں کہ مہنگائی اور کاریگروں کی کمی کے باعث اب ہاتھ سے بنے قالینوں کی فروخت کم ہوگئی ہے۔

 ہاتھ  سے بنے قالین نہ صرف بلوچستان کی ثقافت کی عکاسی کرتے ہیں بلکہ افغان پناہ گزینوں کی آمد کے بعد اس کے  ڈیزائن اور بناوٹ میں بھی جدت آئی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کوئٹہ میں 45 سال سے ہاتھ سے بنے قالین فروخت کرنے والے رحیم اللہ کے خیال میں ان قالینوں کی فروخت میں کمی کی وجہ پاکستانی کرنسی کی قدر میں کمی اور اس کے نتیجے میں بڑھتی ہوئی مہنگائی ہے۔

رحیم اللہ کے مطابق: ’ایک اور وجہ یہ ہے کہ کاریگروں نے قالین بنانے کے معاوضے میں اضافہ کردیا ہے۔ پہلے وہ آٹھ سو سے ہزار روپے لیتے تھے مگر اب وہ 1500 اور 2000 روپے طلب کرتے ہیں۔

ساتھ ہی انہوں نے بتایا: ’ہاتھ کے قالین بنانے والے اکثر کاریگر افغان پناہ گزین تھے، جن میں سے زیادہ تر واپس افغانستان چلے گئے ہیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ ماضی میں ہاتھ سے بنے قالین کا کاروبار اچھا تھا لیکن 2008 اور 2010 کے بعد اس میں بتدریج کمی آتی گئی، خصوصاً پچھلے چار پانچ سال سے اس میں بڑی حد تک کمی آگئی ہے، جس کی وجہ آج کل مارکیٹ میں دستیاب ترکی، ایران اور چین کے مشین سے بنے قالین ہیں۔

رحیم اللہ نے بتایا کہ مشین سے بنے قالین پلاسٹک اور لینن کے بنے ہوتے ہیں جو دیکھنے میں تو خوبصورت ہیں لیکن پائیدار نہیں۔

ہاتھ سے بنے قالین اور مشین کے قالین میں فرق کیا ہے؟

رحیم اللہ نے بتایا کہ ہاتھ اور مشین سے بنے قالین میں فرق یہ ہے کہ ہاتھ سے بنے قالین دنبے اور بکری کی اون اور فر جبکہ مشین سے بنے قالین پلاسٹک اور کیمیکل سے بنے ہوتے ہیں، لہٰذا یہ سستے ہیں۔

 ’ہاتھ کی نسبت مشین سے بنے قالین کی عمر نہیں ہوتی بلکہ اگر آپ اسے ایک سال استعمال کریں تو یہ گِھس جاتا ہے، جبکہ ہاتھ سے بنا قالین جتنا پرانا ہوتا ہے اتنا ہی پائیدار اور مضبوط ہوجاتا ہے، اس کے رنگ تیز ہوجاتے ہیں اور پرانا ہونے پر یہ نادر اور مہنگا ہو جاتا ہے۔‘

انھوں نے مزید بتایا کہ ’ہاتھ سے بنے قالین کو ہر کوئی نہیں سمجھتا، اس کی  پہچان خاص لوگوں کو ہوتی ہے۔‘

 ہاتھ سے بنے قالینوں کے سائز

رحیم اللہ کے مطابق قالین گھروں میں بطور ڈیزائن رکھے جانے کے علاوہ کھڑکیوں پر لگائے اور فرش پر بچھائے جاتے ہیں۔  ’ہاتھ سے بنے قالین ڈھائی بائی چار، تین بائی پانچ، دس بائی سات اور سب سے بڑا دس بائی تیرہ کا ہوتا ہے جبکہ مشین سے بنے قالین بھی ہمارے سائز کی نقل ہیں۔‘

انھوں نے بتایا کہ آج کل ہاتھ سے بنے چھوٹے سائز کے قالینوں کی قیمت چھ سے 20 ہزار روپے، بڑے کی 15 ہزار سے 25 ہزار جبکہ فل سائز کے قالین 50 ہزار سے 80 ہزار روپے میں مل جاتے ہیں۔

ان کے اندازے کے مطابق کوئٹہ شہر میں سن 2000 کی دہائی میں 100 دکانیں تھیں جو 2010 میں کم ہوکر 50 اور 2015 میں 25 اور اب صرف 10 سے 15 رہ گئی ہیں۔ 

گو ہاتھ سے بنے قالین کسی بھی گھر کی خوبصورتی میں چار چاند لگا دیتے ہیں لیکن مہنگائی کے باعث اب یہ عام آدمی کی دسترس سے باہر ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی ویڈیو