پاکستانی کم کارڈیشین کے قتل کی کہانی

وہ اپنے ناظرین کی منافقت کو سامنے لاتے ہوئے کہتی تھیں کہ ’جب میں نہیں ہوں گی تو آپ مجھے یاد کریں گے۔ آپ مجھے دیکھنا پسند کرتے ہیں اور پھر آپ کہتے ہیں میں مر کیوں نہیں جاتی۔‘

قندیل بلوچ کو  جولائی  2016 میں گلا گھونٹ کر قتل کیا گیا (تصویر: قندیل بلوچ فیس اکاؤنٹ)

فیمنسٹ، رسوائی یا مذاق۔ قندیل بلوچ کو ’پاکستانی کم کارڈیشین ‘کہا جاتا تھا جو اس ملک کی پہلی سوشل میڈیا سٹار تھیں۔ ایک ایسی شخصیت جس کو اپنے بستر پر دراز نیم برہنہ ویڈیوز پوسٹ کرنے پر تعریف، ستائش اور اشتعال کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ جو ملاؤں کا ٹھٹھہ اڑاتی تھی اور پاکستانی ٹیم کے میچ جیتنے کی صورت میں اپنے ناظرین کے سامنے برہنہ ہونے کا وعدہ کرتی تھی۔

سال 2016 میں انہیں اپنے چھ بھائیوں میں سے سب سے چھوٹے بھائی وسیم عظیم نے نیند کے دوران گلا گھونٹ کر مار دیا اور اسے نام نہاد غیرت کے نام پر قتل قرار دیا گیا۔ وہ اس وقت 26 سال کی تھی۔ جب وسیم کو گرفتار کیا گیا تو بہت پرسکون تھا۔ اس نے صحافیوں کو بتایا: ’آپ کو پتا ہے وہ فیس بک پر کیا کر رہی تھی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کتاب ’آ ویمن لائیک ہر‘ جو کہ تحقیقاتی صحافت کا ایک مثالی نمونہ ہے، میں صنم مہر نے ایک ایسی عورت کی کہانی بیان کی ہے جو اپنی موت کے بعد بھی اتنی ہی غلط سمجھی گئی ہے جتنی اپنی زندگی میں۔ صنم مہر نے اس کے لیے سینکڑوں انٹرویو کیے جو قندیل بلوچ کے خاندان کے ساتھ، میڈیا، ملاؤں، فیمنسٹ سماجی کارکنوں، سائبر کرائم کے ماہرین کے ساتھ کیے گئے تاکہ اس معاشرے کو سمجھا جا سکے جس نے قندیل بلوچ کے قتل کو ممکن بنایا اور اس کی توثیق کی۔

اپنی ویڈیوز میں قندیل بلوچ اکثر امریکی لہجہ اپنانے کی کوشش کرتی تھیں۔ وہ دعویٰ کرتی تھیں کہ وہ ایک امیر زمیندار کی لاڈلی بیٹی ہیں۔ لیکن ان کے قتل سے کچھ دن قبل ان کی اصل شناخت منکشف کی گئی تھی اور ایک متضاد حقیقت سامنے آئی۔

قندیل بلوچ فوزیہ عظیم کے نام سے اس دنیا میں آئی تھیں۔ وہ پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ایک مفلس سے گاؤں کے رہائشی خاندان کے نو بچوں میں سے ایک تھیں۔ 17 سال کی عمر میں ان کی شادی اپنی ماں کے ایک رشتہ دار سے کر دی گئی تھی۔ وہ انہیں مارتا تھا اور ان پر تشدد کرتا تھا۔ وہ اپنے نومولود بیٹے کے ساتھ وہاں سے فرار ہو کر خواتین کی ایک پناہ گاہ پہنچ گئیں۔ ان کے ماں باپ ان کی منتیں کرتے رہے کہ وہ اپنے شوہر کے پاس واپس چلی جائیں لیکن یہ ان کی میت کو غسل دینے کے دوران ہی تھا جب قندیل کی ماں نے قندیل کے بازوؤں پر سگریٹ سے جلائے جانے کے نشان دیکھے۔

پناہ گاہ میں رہائش کے دوران قندیل بلوچ نے اپنے بیٹے کو اپنے شوہر کے خاندان کے حوالے کر دیا۔ انہوں نے نگران کو بتایا کہ ’میں نے اپنی زندگی بنانی ہے۔ میں جو بھی کرنا چاہتی ہوں میں اس بچے کے ساتھ نہیں کر سکتی۔ میں مجبور ہو جاؤں گی۔‘ ان کی مشہوری کی پہلی سیڑھی 2013 میں پاکستان آئیڈل کے آڈیشن میں ان کو رد کیا جانا تھا جس کے بعد ان کی دیوانہ وار رونے کی ویڈیو وائرل ہوئی۔ انہوں نے آن لائن پوسٹنگ شروع کی جن میں کھیلنے کے انداز میں، احمقانہ لیکن جنسیت سے بھرپور عبجیب حرکتیں کی جاتی تھیں۔ وہ پوسٹ کرتی تھیں: ’آپ میں سے کون ہے جو میری نازیبا ویڈیو دیکھنا چاہتا ہے؟‘ اور اس سے اگلے دن وہ روتے ہوئے ایک ویڈیو پوسٹ کر دیتی تھیں یا اس میں ٹوئرک کر رہی ہوتی تھیں یا اپنے سر درد کی شکایت۔

ان کا کمنٹ سیکشن ایک خطرناک جگہ تھا، جس میں غلیظ گالیوں اور قتل کی دھمکیاں جیسے کہ ’اگر مجھے یہ عورت تنہا مل گئی تو میں اسے اسی جگہ پر قتل کر دوں گا، میں بندوق تلاش کر رہا ہوں اس کا پتہ بھیجو، قہقہہ۔‘ قندیل بلوچ اکثر ان کا مذاق اڑاتی تھیں۔ وہ فیس بک پر لکھتی تھیں کہ ’چاہے میرے ساتھ پیار کرو یا نفرت، دونوں میں میرا فائدہ ہے۔ اگر آپ مجھ سے پیار کرتے ہیں تو میں آپ کے دل میں رہوں گی اور اگر آپ مجھ سے نفرت کرتے ہیں تو میں آپ کے دماغ میں رہوں گی۔‘

وہ اپنے ناظرین کی منافقت کو سامنے لاتے ہوئے کہتی تھیں کہ ’جب میں نہیں ہوں گی تو آپ مجھے یاد کریں گے۔ آپ مجھے دیکھنا پسند کرتے ہیں اور پھر آپ کہتے ہیں میں مر کیوں نہیں جاتی۔‘ بعض اوقات وہ روتی تھیں اور پوچھتی تھیں کہ ان کے فالوورز ان سے نفرت کیوں کرتے ہیں۔

سال 2016 کے موسم بہار میں قندیل بلوچ ایک مذہبی شخصیت مفتی عبدالقوی کے ساتھ ایک کامیڈی شو میں نظر آئیں۔ کچھ مہینے بعد انہوں نے ایک ہوٹل کے کمرے میں دونوں کی تصویریں پوسٹ کیں جس میں انہوں نے عبدالقوی کی ٹوپی پہن رکھی تھی۔ انہوں نے ٹوئٹر پر لکھا: ’میں مفتی عبدالقوی کے ساتھ ایک یادگار وقت گزار رہی ہوں۔‘ میڈیا میں ایک طوفان بپا ہو گیا۔ قندیل بلوچ کی اصل شناخت کو ڈھونڈا گیا اور اس کو شائع کر دیا گیا۔ ان کے خلاف فتوے جاری کرنے کی افواہیں تھیں۔ قندیل بلوچ نے اپنے بھائیوں کے حوالے سے خدشے کا اظہار کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ شاید انہیں روپوش ہونا پڑے اور ایک مہینے بعد وہ مر چکی تھیں۔

ایک کوشش کی گئی ہے کہ قندیل بلوچ کو حساس اور آسان الفاظ میں بیان کیا جا سکے۔ صنم بتاتی ہیں کہ ان کی کہانی کتنی آسانی سے کچھ یقینی تجزیوں میں تقسیم ہو گئی۔ عالمی میڈیا قندیل بلوچ کی تعریف کر رہا تھا کہ ’انہوں نے پاکستانی خواتین کی ایک نسل کو آواز دی ہے۔‘ لیکن سٹوری جیسے جیسے آگے بڑھتی گئی مصنف کو معلوم ہوا کہ یہ کم پرکشش، بے اصولی پر مبنی ہے اور ایسی پیش گوئی یا عمومی تاثر اس کے لیے فائدہ مند نہیں۔

 قندیل بلوچ اپنے بارے میں بات نہیں کر سکتیں اور صنم مہر نے ان کو اجازت دی ہے کہ وہ ایسا نہ کریں۔ وہ ایسی شخصیت تھیں جنہوں نے اپنا عوامی چہرہ سچائی سے دور، خواہشات اور دکھاوے پر مبنی رکھا۔ ان کے اندر زندگی کو اپنی شرائط پر جینے کا جذبہ تھا۔ صنم کی کتاب کوشش کرتی ہے کہ وہ پاکستان کے سوشل میڈیا کے باعث پیدا ہونے والے ان اختلافات کو تلاش کریں جو ایک قدامت پسند معاشرے میں خود کو اس انداز سے پیش کرنے اور ایسی آزادی اپنانے کا حوصلہ دکھانے والوں کی مخالفت کرتا ہے۔ صنم مہر پوچھتی ہیں: ’قندیل بلوچ کو کس جگہ نے تخلیق کیا ہے؟ ان کی کہانی اتنی توجہ کیوں حاصل کرتی ہے۔ ہم ابھی تک ان سے اتنے متاثر کیوں ہیں۔ جب ہم ان کی تصویر یا آخری ویڈیو دیکھتے ہیں تو ان کی تصویر ہمیں کیوں دیکھ رہی ہوتی ہے؟‘

قندیل بلوچ کے قتل کے بعد، قوانین میں غیرت کے نام پر قتل میں رشتہ داروں کی جانب سے معاف کرنے کے نقائص کو ختم کر دیا گیا ہے۔ ستمبر میں وسیم عظیم کو عمر قید سنائی گئی تھی اور قندیل بلوچ کے ایک اور بھائی کو اس جرم میں ملوث ہونے کی پاداش میں سعودی عرب سے واپس ملک منتقل کیا گیا تھا۔ اس سازش میں شریک باقی افراد کو رہا کر دیا گیا ہے، لیکن عبدالقوی جن پر الزام تھا کہ انہوں نے اس قتل کرنے والوں کو اس قتل پر آمادہ کیا کو بھی بری کر دیا گیا۔ ان کے حامیوں نے عدالت سے باہر نکلتے ہوئے ان پر پھولوں کی پتیاں برسائیں۔

سال 2017 میں اعلان کیا گیا تھا کہ پاکستانی اداکارہ صبا قمر قندیل بلوچ پر بننے والے ڈرامے میں ان کا کردار ادا کریں گی۔ اس ڈرامے کا ایک ٹریلر بھی آن لائن پوسٹ کیا گیا تھا اور اس پر پوسٹ کیے جانے والے کمنٹس بھی دل دہلا دینے والے تھے جن میں کہا جا رہا تھا کہ ’صبا قمر کو بھی ایسے ہی قتل کر دیا جانا چاہیے۔‘


اس رپورٹ میں نیو یارک ٹائمز کی معاونت شامل ہے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین